رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں بیان کیا : تنہا کوئی شخص جو علی حکیم کے سلسلہ میں خبر رکھتا ہے تو وہ خود پیغمبر اکرم (ص) ہیں، خداوند عالم نے قرآن کو زمین پر لٹکایا ہے نہ کہ پھینکا ، رسی ہے کہ لٹکایا ، لہذا فرمایا قرآن حبل المتین ہے کہ ان کو مضبوطی سے پکڑ لو ، قرآن بارش نہیں ہے کہ اس کو نازل کیا ہے ، بلکہ حبل ہے جس کو لٹکایا جاتا ہے ، اسی حدیث شریف ثقلین میں فرمایا ہے کہ ایک طرف یہ ریسمان علی حکیم کی طرف وصل ہے ، وہ ریسمان اعتصام اس پر اثر رکھتا ہے کہ اس کو ایک سرہ ایک عظیم مقام سے وصل ہے ، یہ کہ قرآن کے تاویل کو جو عربی مبین ہے کو ہم لوگ سمجھتے ہیں لیکن علی حکیم بخش تک دسترسی نہیں ہے ۔
انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ کہیں یہ نہیں ملے گا کہ حضرت جبرییل (ع) پیغمبر خاتم النبین کے معلم رہے ہوں بیان کیا : خداوند عالم کا بے شمار اسمای حسنا ہے کہ جس کا نمومہ دعای جوشن کبیر میں بیان ہوا ہے ، ان اسمای میں سے ایک «أکرم الأکرمین» ہے ، اگر کہیں کہ مفسر ابھی درس دے رہا ہے تو یعنی تفسیر کا درس دے رہا ہے ، اگر کہیں کہ فقہ کا درس دیا جا ریا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ حتما فقہ کا درس ہے اور اگر کہتے ہیں کہ کریم درس دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کرامت کا درس دے رہا ہے ، خداوند عالم کرامت کا درس دے رہا ہے ، سورہ مبارک علق کے ابتدا میں فرمایا کہ خدای اکرم انسان کو درس دے رہا ہے ، یہ خدای کریم نےکہ سب سے پہلے چودہ معصومین علیہ السلام کے نور کو پیدا کیا ، یہاں فرض نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حضرت جبراییل (ع) کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اهل بیت (ع) کو معلم قرار دیا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۴۴۱/