رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت محمد مصطفی (ص) کی بعثت کا جشن عالم اسلام میں انتہائی مذہبی جوش جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ عمارتوں اور سڑکوں کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا ہے۔ عاشقان رسول خدا(ص) جگہ جگہ لوگوں میں شربت اور مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔
عید مبعث کے موقع پرعراق کے مقدس شہروں نجف اشرف، کربلائے معلی، کاظمین اور سامرہ میں بھی وسیع پیمانے پر جشن کا اہتمام کیا گیا ہے۔
پاکستان اور ہندوستان سے موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ رسول خدا کی بعثت کا جشن بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جا رہا ہے اور ذاکرین و شعرائے کرام اپنے اپنے مخصوص انداز میں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ محافل میلاد کا اہتمام کیا گیا ہے اور گھر گھر نذر و نیاز کا سلسلہ جاری ہے۔
عید مبعث کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران میں عام تعطیل ہے اور لوگ اس پرمسرت موقع پر محافل مدحت کا انعقاد کر کے خوشی و جشن منا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں۔
عید مبعث کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں زائرین اور عاشقان اہلبیت عصمت و طہارت مشہد مقدس اور قم میں جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے حرم مطہر میں موجود ہیں اور جشن منا کر ان عظیم المرتبت ہستیوں کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت نچھاور کر رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مذہبی مقامات، مساجد اور امام بارگاہوں میں جشن عید مبعث جاری ہے اور نوجوان بچے سڑکوں پر جگہ جگہ اسٹال لگا کر مومنین کرام کو شربت اور میٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ اسلامی عقائد و روایات کے مطابق ستائیس رجب المرجب حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خداوندعالم نے رسالت کے لئے مبعوث کیا۔
پیغمبر اسلام (ص) کے قلب مطہر پر آیت قرآنی نازل ہونے کے بعد بعثت نبوی انسانیت کی ہدایت کا آغاز ثابت ہوئی اور انسانی زندگی میں بنیادی تبدیلی کا باعث بنی تاکہ انسانیت عقیدہ توحید کے ہمراہ ہدایت کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ جس وقت جناب عبداللہ اور بی بی آمنہ کے درّ یتیم آنحضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر چالیس سال تھی اور آپ مکہ مکرمہ میں زندگی بسر فرما رہے تھے۔
ستائیس رجب المرجب کو جبرئیل امین، اللہ کی جانب سے غارحرا میں آخری رسول کا عہدہ لے کر آنحضور (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ وہ دنیا والوں کو صحیح راستے اور صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائیں۔
مبعث کے واقعے کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی اس دن ہر سال پوری دنیا کے مسلمان انتہائی جوش و خروش اور عقیدت واحترام کے ساتھ جشن عید مبعث مناتے ہیں۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) بن عبداللہ بن عبدالمطّلب بن ہاشم، اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں آپ،اولوالعزم انبیاء میں سب سے افضل ہیں آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن کریم ہے۔ آپ توحید کے منادی اور اخلاق و مہربانی کے علمبردار ہیں۔حضرت محمد مصطفے ( ص ) درجہ نبوت پر ابتدا ہی سے فائزتھے، ۲۷رجب کومبعوث برسالت ہوئے اوراسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔
حضرت محمد مصطفے ( ص ) جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر اپنا پیغام پہنچانے اور لوگوں کی صحیح راستے پر ہدایت کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئی، اسی کو بعثت کہتے ہیں ۔حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعد تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله(ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔
اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے صرف حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول اللہ(ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، صرف حضرت علی (ع) تھے ۔
اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے گا اور جو اس راہ میں میری مدد کرےگا وہ میرا بھائی، میرا وصی، میرا خلیفہ اور میراجانشین ھوگا۔
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبہ اسی سوال کو دہرایااور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی میرا خلیفہ اور میراجانشین ہے ۔ پیغمبر اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور اپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا ۔ دوسری ذات جناب خدیجۃالکبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کا شرف حاصل کیا۔
تواریخ میں ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ۳۸سال کی عمرمیں " کوہ حرا " کواپنی عبادت گذاری کی منزل قراردیااوراس کے ایک غارمیں بیٹھ کرعبادت کرتے تھے غارکی لمبائی چارہاتھ اورچوڑائی ڈیڑھ ہاتھ تھی اورخانہ کعبہ کودیکھ کرلذت محسوس کرتے تھے یوں تودو دو، چارچارشبانہ روزوہاں رہاکرتے تھے لیکن ماہ رمضان سارے کاساراوہیں گزراتے تھے۔
مورخین کابیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی عالم تنہائی میں مشغول عبادت تھے کہ آپ کے کانوں میں آوازآئی " یامحمد" آپ نے ادھرادھر دیکھا کوئی دکھائی نہ دیا۔ پھرآوازآئی پھرآپ نے ادھرادھردیکھا ناگاہ آپ کی نظرایک نورانی مخلوق پرپڑی وہ جناب جبرائیل تھے انہوں نے کہا کہ ”اقراء“ پڑھو، حضورنے ارشاد فرمایا”مااقراء۔“ کیاپڑھوں انہوں نے عرض کی کہ " اقراء باسم ربک الذی خلق الخ" پھرآپ نے سب کچھ پڑھ دیا۔
کیونکہ آپ کوعلم قرآن پہلے سے حاصل تھا جبرئیل کے اس تحریک اقراء کامقصدیہ تھا کہ نزول قرآن کی ابتداء ہوجائے اس وقت آ پ کی عمرچالیس سال ایک یوم تھی اس کے بعدجبرئیل نے وضو اورنمازکی طرف اشارہ کیااوراس کی تعداد رکعات کی طرف بھی حضور کو متوجہ کیاچنانچہ حضور والا صفات نے وضو کیا اور نمازپڑھی آپ نے سب سے پہلے جو نمازپڑھی وہ ظہرکی تھی پھرحضرت وہاں سے اپنے گھرتشریف لائے اورخدیجةالکبری اورعلی ابن ابی طالب سے واقعہ بیان فرمایا۔
ان دونوں نے اظہارایمان کیااورنمازعصران دونوں نے بجماعت اداکی یہ اسلام کی پہلی نمازجماعت تھی جس میں رسول کریم امام اورخدیجہ اورعلی ماموم تھے۔ آپ درجہ نبوت پر ابتدا ہی سے فائزتھے، ۲۷رجب کومبعوث برسالت ہوئے اسی تاریخ کونزول قرآن کی ابتداء ہوئی۔
بعثت کے بعد آپ نے تین سال تک نہایت رازداری اورپوشیدگی کے ساتھ فرائض انجام دیئے اس کے بعد کھلے عام تبلیغ کاحکم آگیا”فاصدع بماتومر“ جوحکم دیاگیاہے اس کی تکمیل کرو۔پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) بن عبداللہ بن عبدالمطّلب بن ہاشم، اللہ تعالی کے آخری پیغمبر ہیں آپ، اولوالعزم انبیاء میں سب سے افضل ہیں آپ کا اہم ترین معجزہ قرآن ہے۔
آپ یکتا پرستی کے منادی اور اخلاق کے داعی ہیں۔ نیز سربراہ حکومت، قانون ساز، سماجی مصلح اور افواج کے سربراہ تھے۔ گوکہ آپ عرب کے مشرک معاشرے میں پیدا ہوئے تھے تاہم اپنی زندگی کے دوران بتوں کی پرستش سے دوری کرتے تھے اور معاشرے میں رائج اخلاقی برائیوں اور قباحتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ حتی کہ چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے۔
آپ کا اہم ترین پیغام توحید اور یکتا پرستی کی طرف دعوت، تھا اور آپ اپنی بعثت کا مقصد اخلاقی مکارم اور اچھائیوں کی تکمیل و اتمام سمجھتے تھے۔
اس کے باوجود کہ مکہ کے مشرکین نے آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کو کئی سال تک تشدد اور اذیت و آزار کا نشانہ بنایا مگر آپ اور آپ کے پیروکار کبھی بھی اسلام سے دستبردار نہ ہوئے مکہ میں تیرہ سال تک دعوت و تبلیغ کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ آپ کی ہجرت مدینہ اسلامی تاریخ کا مبداء قرار پائی۔ آپ کو مدینہ میں مشرکین مکہ کی طرف سے متعدد جنگوں کا سامنا کرنا پڑا گوکہ مجموعی طور پر ان جنگوں میں فتح نے اسلام اور مسلمانوں کے قدم چومے۔
رسول خدا(ص) کی کوششوں سے عربوں کا جاہلیت زدہ معاشرہ مختصر سے عرصے میں ایک توحیدی معاشرے میں بدل گیا اور تقریباً پورےجزیرے نمائے عرب نے آپ کی حیات طیبہ کے دوران ہی اسلام قبول کیا۔ بعد کے ادوار میں بھی آج تک اسلام کا فروغ جاری ہے اور آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے۔
رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ آپ کے بعدقرآن اور اہل بیت (ع) کا دامن تھامے رکھیں اور ان سے ہرگز جدا نہ ہوں۔ اور گوناگوں مواقع پر ـ منجملہ واقعہ غدیر، میں امام علی علیہ السلام کو اپنا جاانشین مقرر فرمایا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/