رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ پاکستان کی بنیاد ہی اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر رکھی گئی، افسوس بعد میں ملک و قوم کی بجائے اپنی خواہشات کو ترجیحات کا نام دے کر فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کو ایک سیکورٹی سٹیٹ میں تبدیل کردیاگیا۔
2018ءکے انتخابات کے بعد آنیوالی حکومت بھی تبدیلی کے نام پر معرض وجود میں آئی، وزیراعظم نے قوم سے پہلا خطاب کیا جسے مختلف حلقوں میں سراہابھی گیا اور تنقید بھی کی گئی ، بہرحال خطاب خطاب ہی ہوتا ہے اگر انداز موثر اور بہتر ہو تو اچھے بھلے متاثر ہوجاتے ہیں ، دیکھنا یہ ہوگا کہ اس پر عمل کے امکانات کتنے ہیں ۔
کیا وزیراعظم اور ان کی کابینہ حساس مسائل حل کرپائینگے، اہم معاملات پر فیصلے ”کہیں اور ہونے “کا تاثر ختم کرپائینگے ، جن مسائل کو نچ بھی نہیں کیا جاسکتا اس پر بھی کام ہوسکے گا یا نہیں، فیصلہ مستقبل ہی کرے گا، ملکی استحکام کےلئے ضروری ہے کہ بنیادی انسانی حقوق ، شہری آزادیوں کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی قائم کی جائے۔
حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ پاکستان کی بنیاد ہی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے طو ر پر رکھی گئی لیکن افسوس قائد اعظمؒ کے بعد اپنی خواہشات کو ترجیحات کا نام دیدیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بننے کی بجائے سیکورٹی سٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ، انسانی حقوق، شہری آزادیاں سلب کی جاتی رہیں جبر کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا، استحصال کی وہ لہر چلی کہ آج تک ملک کا بڑا طبقہ استحصالی چکی میں پس رہاہے اور بہت سے تاریک راہوں میں مارے گئے کہ گھر والوں کو بھی علم نہ ہوسکا۔ کچھ زندانوں کی نذر ہوئے اور کچھ لاپتہ ہیںجن کا اتاپتہ بتانے والا کوئی نہیں۔ اسی طرح پسند و ناپسند کے ایجنڈے اور ذاتی عناد کی بنیاد پر بدنام زمانہ فہرستوں میں شریف شہریوں کو ڈال دیاگیا۔
انہوں نے کہاکہ 2018ءکے انتخابات کے بعد بھی جیتنے اور ہارنے والے دونوں نے دھاندلی کا ہل ہلہ مچایا جو ایک حقیقت اور ہماری آب بیتی ہے بہرحال وفاق و صوبوں میں حکومتیں قائم ہوگئیں ، بطور سربراہ حکومت وزیراعظم نے قوم سے پہلا خطاب بھی کیا ، تقریر یا خطاب خطاب ہی ہوتاہے وزیراعظم کے خطاب کے بعد کچھ حلقوں نے اسے بڑی امید قرار دیا تو بعض حلقوں نے پرانی تقریر کو نئے انداز میں کہہ کر مسترد کردیا ، البتہ خطاب کے بعدعمل کتنا ہوگا اس کا فیصلہ مستقبل کردےگا، ابتدائی اشارے مثبت دکھائی نہیں دیئے کیونکہ کچھ مخالفین کے گرد تو گھیرا تنگ کرنے کے اقدامات کئے گئے البتہ کچھ کا تذکرہ بھی نہیں کیاگیا، دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ حساس مسائل کو کس طریقے سے حل کیا جاتاہے ؟وہ مسائل جن کے بارے میں ”فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں“کا تاثر دیا جاتاہے کیا ان کے بارے کوئی فیصلہ کرپائینگے ؟ جن امور کو ٹچ بھی نہیں کیا جاسکتا کیا موجودہ حکمران اس طرف بھی دھیان دے سکیں گے؟شہری آزادیوں پر چڑھ دوڑنے اور قدغنیں لگانے والوں کو لگام دی جائے گی اور آزادی اظہار سے غیر اعلانیہ پابندی کا خاتمہ کرپائینگے؟یہ اہم سوالات ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پرانے چہروں کی کابینہ اور اہم عہدوں پر تعیناتی سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ جیسے یہ پہلے حالات یا صورتحال کا تسلسل ہے ۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں استحکام، مضبوطی اور ترقی کےلئے ضروری ہے کہ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا تحفظ ،رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دیا جائے، بین الاقوامی دنیا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کئے جائیں، مسلم دنیا کے مسائل میں الجھنے کی بجائے ثالثی کا کردار ادا کیا جائے جبکہ ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے ساتھ ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر کو وہاں کی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا روڈ میپ دیا جائے ۔/۹۸۹/ف۹۴۰/