رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی والدہ دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ، اس اعتبار سے آپ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی اور فاطمی ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوں میں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے ان کے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔
نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلامی درسگاہ کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔
آپ اپنے اوقات کو عبادت خداوند میں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ کی پیشانی سے آشکار ہے۔ آپ کے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے پانچ اسلامی خلیفوں کا دور دیکھا:
ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔ ، سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔ ، عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔ ،یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔ ، ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی" حضرت علی ابن ابیطالب کے نام 69 سال تک خطبوں میں برا کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلام (ص) میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی اور فقہا میں سے ابن مبارک، زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڑوں کتابوں میں پانچویں امام کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔
ہمارے امام نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے ۔ اور آپ تمام علوم و فنون کے استاد تھے ۔