رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتہ کی شام یونیورسٹیوں، سائنس و ٹیکنالوجی کے پارکوں اور علمی و تحقیقاتی مراکز کے اساتذہ، محققین اور ممتاز علمی شخصیات سے ہونے والی ملاقات میں ایران کو مقتدر، باوقار، پوری طرح خود مختار، دولتمند، مساوات سے آراستہ، عوام دوست، پاکدامن، محنتی، ہمدرد اور پرہیزگار حکومت رکھنے والی ریاست بنانے کیلئے بیس سالہ اہداف کا خاکہ کھینچا ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ کہتے ہوئے کہ یونیورسٹیاں ان اہداف کی بنیاد اور اساس ہیں زور دیکر فرمایا : یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں علمی نمو کی رفتار بڑھانا، نوجوانوں میں ایرانی اسلامی تشخص کا احساس بیدار کرنا اور اسے تقویت پہنچانا، یونیورسٹیوں اور طلبہ کا انقلابی ہونا اور نرم جنگ کے افسروں اور کمانڈروں کا حقیقی معنی میں اپنا کردار ادا کرنا اسلامی نظام کو دنیا میں نمایاں علمی طاقت اور اسلام و روحانیت سے آراستہ جمہوریت کے نمونے کے طور پر پیش کرنے کے لازمی تقاضے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ملک کے مستقبل کے تعلق سے ہر ملک کے دانشوروں، مفکرین اور مممتاز علمی ہستیوں کو فکر رہتی ہے فرمایا : مستقبل کے بارے میں وژن تیار کرنا اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ برسوں میں ملک کا انتظام و انصرام انھیں طلبہ کے دوش پر ہوگا جو آج یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ آپ نے سوال کیا کہ بیس سال بعد کے ایران کے لئے کیسا پسندیدہ خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے؟ اگر پسندیدہ مستقبل ایران کو مقتدر، باوقار، پوری طرح خود مختار، دولتمند، مساوات سے آراستہ، عوام دوست، پاکدامن، محنتی، ہمدرد اور پرہیزگار حکومت رکھنے والی ریاست کے طور پر دیکھنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ یونیورسٹیاں خود کو ان خصوصیات سے آراستہ کریں اور آئندہ نسل کے دل و دماغ میں ان اوصاف کو بٹھائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر یونیورسٹیوں میں ان اوصاف کو اہمیت نہ دی گئی تو مستقبل میں ایران دوسروں کا محتاج، ثقافتی اعتبار سے تباہ، سماجی، قومیتی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کا شکار اور اشرافیہ کی حکمرانی میں گرفتار ریاست ہوگا فرمایا : ایسے مستقبل کے نتیجے میں ایران ایک ایسی ریاست بن جائے گا جو دولت کا انبار لئے بدبختی، انتشار اور محرومیت کے اس درے کے دہانے پر کھڑا ہوگا جس کا نمونہ آج امریکی معاشرہ یا امریکی وال اسٹریٹ ہے۔ اس مستقبل میں پورا معاشرہ رفاہ سے بہرہ مند نہیں ہوگا بلکہ ملک ایرانی وال اسٹریٹ بن جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسی وجہ سے میں ہمیشہ یونیورسٹیوں، اساتذہ اور وزرائے علوم کے سلسلے میں خاص تاکید کرتا ہوں، کیونکہ ایران کو مطلوبہ اور پسندیدہ مستقبل تک پہنچانے کے لئے دانشور، صابر، مجاہد فی سبیل اللہ، ماہر اور شجاع افراد کی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ تربیت بنیادی طور پر یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے فرمایا : ایسے نوجوانوں کی تربیت کے تقاضے یونیورسٹیوں کے ماحول میں علمی پیشرفت، اخلاقی نظم و ضبط، دینی بردباری، سیاسی بصیرت، تشخص اور افتخار کا احساس پیدا کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علمی نمو کی رفتار بڑھانے پر زور دے کر کہا: میں نے حال ہی میں نمو کی رفتار کم ہو جانے کی بابت متنبہ کیا تھا اور علمی میدان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے ہمارے پاس علمی نمو کی رفتار بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہرین اور صاحبان رائے کے اس تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ مغرب میں علمی نمو کی رفتار کم ہوگئی ہے فرمایا : اگر مغرب میں رفتار کم ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی توانائی سے زیادہ وسائل کو استعمال کیا ہے جبکہ ہمیں اس ساٹھ یا ستر سالہ علمی پسماندگی کو دور کرنا ہے جو خائن اور غافل حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی، تاکہ اس عالمی مقابلے میں ہم خود کو بلند سطح پر پہنچا سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبہ کے اندر ایرانی اسلامی تشخص پیدا کرنے اور اسے تقویت پہنچانے میں اساتذہ کے کے کلیدی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا : اساتذہ خلائی شعبے، نینو ٹیکنالوجی، جوہری ٹیکنالوجی، طبی و حیاتیاتی شعبے میں ملک کو حاصل ہونے والی ترقی کے بارے میں بتا کر طلبہ میں یہ تشخص بیدار کر سکتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمہوریت کے میدان میں اسلامی نظام کے نئے پیغام اور نئے نقطہ نگاہ کو ملک کے افتخارات کا جز قرار دیا اور فرمایا : ایران کا اسلامی نظام واحد نظام حکومت ہے جس نے جمہوریت کو اسلام اور روحانیت کے سائے میں پیش کیا ہے۔
آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ مغرب کی جمہوریت در حقیقت پارٹیوں کی حکمرانی سے عبارت ہے اور مغربی ملکوں میں پارٹیاں عوام کے درمیان پھیلے نیٹ ورک کے بجائے کچھ سیاستدانوں اور سرمایہ داروں پر مشتمل سیاسی کلب کی مانند ہوتی ہیں فرمایا : اگر نوجوان کو اس حقیقت سے روشناس کرایا جائے تو وہ ہرگز فریفتہ نہیں ہوگا اور اگر اعلی تعلیم کے لئے ملک سے باہر گیا بھی تو واپس لوٹ کر وطن آئے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کو مطلوبہ مستقبل سے آراستہ بنانے کے لئے یونیورسٹیوں میں سیاسی بصیرت کو بھی ایک اہم تقاضا قرار دیا اور فرمایا : میں نے یونیورسٹیوں میں سیاسی امور پر ہمیشہ تاکید کی ہے، یہاں تک کہ گزشتہ برسوں میں نے کہا کہ اللہ لعنت کرے اس پر جس نے یونیورسٹیوں میں سیاسی امور اور فکر کی بساط لپیٹ دی۔
آپ نے مزید فرمایا : یونیورسٹیوں میں مختلف سیاسی رجحانات کے لوگوں کے موجود ہونے میں کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن یونیورسٹیوں کے عہدیداران کو چاہئے کہ یونیورسٹیوں کی بحث و مباحثے کی فضا کو ہمیشہ اسلامی انقلاب کے اہداف اور اصولوں کی سمت لے جائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں علمی سفارت کاری کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فرمایا : علمی روابط اور سفارت کاری اہم ہے اور میں اس سے اتفاق رکھتا ہوں لیکن ہوشیار رہنا چاہئے کہ ہم کہیں فریب نہ کھا جائیں اور علمی روابط سیکورٹی دراندازی کا بہانہ نہ بن جائے، اس لئے کہ دشمن علمی روابط سمیت تمام مواقع کو دراندازی کے لئے استعمال کرتا ہے۔
آپ نے مزاحمتی معیشت کو قومی وقار کا راستہ اور موجودہ احتیاجات کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا : کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قومی وقار پر مکرر تاکید کرنے کی صورت میں آپ سماج کی موجودہ مشکلات اور ضرورتوں کو کیسے دور کریں پائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واحد راستہ استقامتی معیشت کی پالیسیوں کا صحیح اور حقیقی معنی میں نفاذ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں میں ثقافتی امور پر توجہ دئے جانے پر زور دیا اور انقلابی اساتذہ کو نرم جنگ کے کمانڈروں اور انقلابی طلبہ کو اس جنگ کے افسران کا خطاب دیا اور فرمایا : آپ کا فریضہ حقیقی معنی میں پوری سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا ہے کیونکہ گزشتہ برسوں کی نسبت دشمن کی نرم جنگ اب کئی گنا زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کچھ اساتذہ اور مفکرین نے گوناگوں علمی مسائل کے بارے میں اپنے نظریات بیان کئے۔