رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گنبد حرم محبین اور عاشقین سید الاوصیا کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے جس کی تعمیر صفوی حاکم نے چار سو سال پہلے کی ،اس کا سب سے پہلا حکم شاہ عباس اول کبیر نے دیا اس کے بعد اس کے پوتے شاہ صفی الصفوی نے اسے مکمل کروایا۔
سن1743عیسی میں نادر شاہ کے حکم پر قبہ کو سونے کے پلیٹوں والی سلیب سے مزین کیا۔
سن 1886میں موسمی اثرات کی وجہ سے گنبد شریف کے سونے کی اینٹوں کو تبدیل کر دیا گیا اور ترمیم کے بعد مشہور کاریگر حاج محسن اور کارپنٹر حسین شمس کی محنت کے بعد دوبارہ سونے کی اینٹوں کو واپس گنبد پر لگایا گیا۔
1928عیسوی میں بارشوں کی وجہ سے کچھ سونے کی پلیٹیں گر گئی پانی گنبد میں داخل ہو گیا اس وقت حاج سعید فرزند حاج محسن کی نگرانی میں ترمیم کا عمل مکمل کیا گیا ۔
ساٹھ کی دھائی کے نصف میں ایک مرتبہ پھر گنبد میں کریک پڑ گیا جس کےلئے ترمیم کی ضرورت تھی اس موقع پر ایک نیک تاجر محمد رشاد مرزہ نے اپنی خدمات پیش کی اور دو سال کی شب روز محنت اور کوششوں کے بعد 1971میں گنبد کی ترمیم کی گئی جس پر اس زمانے میں دس لاکھ عراقی دینار لاگت آئی تھی۔
1991ء میں گنبد شریف پر بعثی نظام کی جانب سے حملہ ہو جو انتفاضہ شعبانیہ کی وجہ سے تھا جس کی وجہ سے گنبد کو بھاری مقدار میں نقصان پہنچا،اسکے بعد گنبد کی ترمیم اور تعمیر بھی کی گئی ۔
2009 ء میں جنرل سیکٹری سید مھدی حسینی کی نگرانی میں گنبد کے راونڈاور اساس کی ترمیم مکمل کی گئی ،
سن2013ء میں حرم کے جنرل سیکٹری شیخ ضیا الدین زین الدین نے طلاکاری کے منصوبےکا اغاز کیا جس میں گنبد کے پانچ میٹر اونچائی اور بیس میٹر بیس کی طلاکاری شامل تھی،اس دوران 2525عدد ٹکڑوں کو کھڑکیوں میں تبدیل کیا گیا ،اس کام کی نگرانی حرم حضرت عباس کے متعلقہ شعبہ نےکی تھی۔
2016 میں حرم کےجنرل سیکٹری علامہ سید نزار حبل المتین نے پوری گنبد کی طلاکاری کے منصوبے کی منظوریدی جس کے بعد دو سال میں اس کی ترمیم و طلاکاری کا عمل ایرانی کمپنی الکوثر کے تعاون سے مکمل کیا گیا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/