‫‫کیٹیگری‬ :
28 December 2016 - 21:48
News ID: 425349
فونت
آیت الله جعفر سبحانی:
حضرت ‌آیت الله سبحانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ معاشرے کو وہ علماء نجات دیتے ہیں جو معاشرے میں موجود رہ کر لوگوں کے درد سے آگاہ رہتے ہیں کہا: ایک عالم کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے معاشرہ کا درد ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی

 

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے آج بدھ کے روز اپنے درس خارج فقہ کے آغاز پر جو مسجد آعظم قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ قم کی شرکت میں منعقد ہوا ، حضرت امام علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت نے فرمایا کہ اگر کسی نظام حکومت کو پابرجا رہنا ہے تو اس کے چار ستون ہیں اور اس کا پہلا ستون عوام کی ھدایت کرنے والے علماء ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا : جاھل ھرگز ھدایت کا فریضہ نہیں انجام دے سکتا ، معاشرے کو عالم کی ضرورت ہے جو لوگوں کو حرام و حلال اور واجب و مستحب سے آشنا کر سکے ، ان کے اعتقادات کی رھبری کرے ، آج ھندوستان میں ڈاکٹرس اور پروفیسرس ہیں مگر وہ بے عقل گای کی عبادت کرتے ہیں اس کا احترام کرتے ہیں ، کیوں کہ ان کے درمیان علماء نہیں ہیں جو انہیں اس بدبختی سے نجات دلا سکیں ، ممکن ہے معاشرہ ایٹمی اور جوھری توانائی کا مالک ہو مگر چون کے ان کے درمیان علماء نہیں ہیں وہ معاشرہ جاھل ہے ۔

حوزہ علمیہ قم میں درس خارج فقہ و اصول کے استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ عالم وہ ہے جس نے قران و روایات کو بغرور پڑھا ہو اور اسے بخوبی سمجھا ہو کہا: اگر کوئی عالم فقط خود کو نجات دے اور معاشرے کی نجات کے لئے کوئی قدم نہ اٹھائے تو اسے گوشہ نشین عالم دین کہا جاتا ہے ، لذا ہمیں اپنے معاشرے کی نجات کے لئے قدم اٹھانا چاہئے ۔

انہوں نے مزید کہا: معاشرے کو فقط معاشرے میں حاضر رہنے والا اور لوگوں کے درد سے آشنائی رکھنے والا عالم دین ہی نجات دے سکتا ہے ، لہذا ایک عالم کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے معاشرہ کا درد کیا ہے ، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ عالم دین جو کچھ بھی کہے خود بھی اس پر عمل کرتا ہو کیوں کہ اگر عالم دین فقط زبان سے کہے گا اور عمل میں اسے انجام نہ دے گا تو اس کی باتیں لوگوں پر اثر انداز نہ ہوں گی کیوں کہ لوگ یہ کہیں گے کہ اگر یہ باتیں سچی اور حق ہیں تو وہ خود کیوں نہیں اس پر عمل کرتے  ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم حوزہ علمیہ میں رہتے ہیں نیز علاقہ مند ہیں کہ یہ نظام حکومت باقی رہے کہا: ضروری ہے کہ ہمارا حوزہ علمی اور فکری تربیت گاہ رہے اور طلاب کے علم و افکار کی تقویت میں کوشاں رہے کیوں آج کی فقہ و اصول فقہ کی کتابیں ماضی کی کتابوں کے ہم پلہ نہیں ہیں ۔

انہوں نے بیان کیا: حوزہ علمیہ علوم اور افکار کی تربیت کے ساتھ ساتھ معاشرے کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرے ، اور نظام اسلامی کی بقاء کے خواھان طلاب خود کو ان روایات کی جگہ قرار دیں ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۵۶۷

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬