رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ ذاریات کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : خداوند عالم سورہ ذاریات میں بعض انبیا کے قصہ کو بیان کیا ہے جس میں وعظ و عبرت بیان کیا ہے اور عبرت اس دلیل کی وجہ سے عبرت ہے کہ مطالعہ کرنے والے نقص سے کمال اور باطل سے حق اور قبیح سے خیر کی طرف عبور کریں اور اگر عبور نہ کریں تو عبرت حاصل نہیں کی ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : عاد و ثمود کے واقعہ میں ان کے انبیاء کو ذکر نہیں کیا گیا اور فقط اسی قوم کو ذکر کیا گیا ، فرمایا ثمود قوم کو صاعقہ سے ہلاک کیا اور عاد قوم پر شدید ہوا کا عذاب نازل کیا ، اس واقعہ میں حضرت ابراهیم (ع) کے وجود مبارک کے سلسلہ میں فرمایا کہ سبھی انبیاء کا مقام ایک نہیں ہے بلکہ ان کی فضیلت ان کے معارف اور کمالی درجات کی مناسبت سے ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اس اشارہ کے ساتھ کہ ابراہیم علیہ السلام کا وجود مبارک صرف یہ نہیں چاہتا تھا کہ مردہ کس طرح زندہ ہوتا ہے کہ ان کا علم حصولی علم حضوری میں تبدیل ہو جائے، بیان کیا : بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کوشش میں تھے کہ فاعل احیا و اماتہ ہو جائیں ، نہ یہ کہ مورد فعل ہوں ، فعل کے مورد وہ پیغمبر حضرت عزیر(ع) تھے ، پرندوں کو زندہ کرنے کا کام خداوند عالم کی اجازت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انجام دیا ، اس میں فرق یہ ہے کہ انسان مورد احیا و اماته ہو یا مصدر احیا و اماته ہو ۔
انہوں نے بیان کیا : طمأنینہ کی مراحل و مراتب ہیں ایک وقت ایک آدمی چاہتا ہے کہ برہان قائم کرے تا کہ علم الیقین کے مطابق وہ مشخص ہو ، ایک وقت اس شخص کے لئے برہان معلوم ہے لیکن چاہتا ہے کہ عین الیقین کے مرحلہ کو حاصل کرے اور اس کو مشاہدہ کرے اور علم شہود تک پہوچ جائے ، صرف بات کرنا اور فکر کرنا نہ ہو ، اس سے بلند منزل تیسرا مقام ہے کہ جہاں ایک شخص چاہتا ہے خود مصدر اماته و احیا ہو کہ یہ تیسرا مقام شہود و طمأنینہ زیادہ چاہتا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : روح قرآن کریم اور روح اہل بیت علیہم السلام ایک جیسا ہے ، دنیا کے نظام میں اہل بیت علیہم السلام شہید ہوتے ہیں کہ قرآن مجید محفوظ رہے ، دنیا کی ہستی نظام میں اہل بیت علیہم السلام قرآن کریم کے خادم ہیں ، شہید ہوتے ہیں تا کہ قرآن باقی رہے ، اپنے مادی بدن کو دیتے ہیں ، امام کا بدن قرآن کے مساوی نہیں ہے ۔ بلکہ معصوم علیہم السلام کا روح مطہر قرآن ہے کہ وہ اپنی جگہ پر محفوظ ہے ، وہ جو قرآن کے مساوی ہے اور قران ناطق ہے امام کا روح ہے نہ کہ بدن اور امام معصوم یقینی طور پر مرنے والے نہیں ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۳۳/