رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ ذاریات کی تفسیر میں آسمان کے سلسلہ میں خداوند عالم کے اختیارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آیہ « وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ» کی تفسیر میں بیان کیا : آسمان کی وسعت کی کئی قسم ہے ، اس وسعت کے ایک گوشہ کو علم تجربی نے کشف کیا ہے لیکن یہ کہ آسمان کی چابھی کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں علوم تجربی بے بس ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : یہ کہ آسمان کے دروازے اور آسمان کے دروازے کو بند ہونا خداوند عالم کے اختیار میں ہے یہ تجربی علم کے ذریعہ کشف نہیں کیا جا سکتا اور اس سے نہیں سمجھا جا سکتا ہے کہ عقائد طیبہ اور کلمات طیبہ صاعد ہیں یعنی کیا ؟ کیا یہ دھوا کی طرح ہیں یا انبیا و اوصیا کے عروج کی طرح ہیں ، اس وسعت کے ایک گوشہ کو صرف علم جدید حاصل کرتا ہے ۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ « عقیدہ اوپر جاتا ہے یعنی کیا ؟»، بیان کیا : نیک عمل سیڑھی کی طرح عقیدہ کو اوپر لے جانے کا پلیٹ فارم ہے کہ عقیدہ اگر پرواز کرنا چاہے تو نیک عمل کے پلیٹ فارم سے پرواز کرتا ہے کیونکہ عقیدہ بغیر عمل کے رشد نہیں کرتا ہے ، یہ عقیدہ جو کہ اوپر کی طرف جاتا ہے اس عقیدہ کے معتقدین بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں جب کہتے ہیں «الصلوه معراج المؤمن» یقینا نماز پڑھنے والے بھی اوپر کی طرف جاتے ہیں ، جب نماز پڑھنے والے عروج کی جانب پرواز کرتے ہیں تو ان کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں لیکن یہ دروازے کفار کے لئے نہیں کھلتے ہیں ، مگر مومنین و نماز گزار کے لئے جو عروج ہے وہ انبیاء کے عروج سے فرق کرتا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۴۱۱/