‫‫کیٹیگری‬ :
10 March 2017 - 23:59
News ID: 426803
فونت
کیا وہ سماج مہذب کہلانے کے لائق ہے، جہاں مریضوں کے گردے اور عطیہ کیا گیا خون تک بیچ دیا جائے؟ اس پر ضد یہ کہ ہماری دو چار تسبیحات پر اللہ رب العزت، جو رب العدل بھی ہے، نے ہمارے لئے حوروں کے ریوڑ تیار کر رکھے ہیں؟ چند دن پہلے ہی عدالت عظمٰی نے یوٹیلٹی
طاہر یاسین طاہر



 تحریر: طاہر یاسین طاہر

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے
غالب اپنے زمانے کے نہیں، آئندہ زمانوں کے بھی استاد ہیں۔ شعر کیوں کہا اور اس کا شانِ نزول کیا تھا؟ ایک قصیدے کا شعر ہے۔ غالب کا کمال مگر یہ ہے کہ ان کا شعر جب بھی پڑھا جائے، نئے معنی عطیہ کرتا ہے۔ نئے زاویے سے مسکراتا ہے اور ادبی جمال کو مہمیز کرتا ہے۔ کئی شعر ایسے ہوتے ہیں جو ہمہ گیر اور آفاقی اثر رکھتے ہیں۔ غالب اور میر تقی میر، داغ، ذوق، بہادر شاہ ظفر اور میر درد سمیت کئی کلاسیکل اساتذہ کی تو بات ہی الگ۔ جدید عہد کے بعض شعرا نے بھی لازوال شہکار تخلیق کئے۔ دوام مگر کلاسیکیت کو ہی ہے۔ جب بھی دیکھو بغل گیر ہونے کو دوڑے چلے آئے۔ میر درد کا شعر ہے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
جب بھی زندگی کے چہرے پر، پریشانی یا پشیمانی اترتی ہے تو یہ شعر اسے نئے نئے رنگ سے تراشتا ہوا صفحہ ذہن پر اترتا چڑھتا رہتا ہے۔ درد کے عہد میں زندگی طوفان تھی، مگر ایسی نہ ہوئی ہوگی جیسی اب ہے۔ کیا غالب کے عہد میں کاروبار نہ ہوتا تھا؟ کیا اس زمانے میں منافع آدمی کی پہلی ترجیح نہ تھی؟ بالکل کاروبار بھی ہوتا تھا اور منافع انسان کی پہلی ترجیح رہی، اگرچہ اس دوڑ میں انسان نے کئی پہلوؤں سے خسارے کا سودا ہی کیا۔ غالب کے عہد میں مگر خون کا کاروبار نہ ہوتا تھا۔ جی ہاں خون کا۔ غالب کے عہد میں گردے نکال کر فروخت نہ کئے جاتے تھے۔ دور کی کوڑی لانے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں میڈیکل کی ترقی اس حد کو نہ پہنچی ہوئی تھی۔ تقابل نہیں۔ البتہ تمام تر سماجی و انسانی کمزوریوں کے باوجود احساس زندہ تھا۔ آدمی، آدمی کا دشمن تو ازل سے ہی ہے، مگر دشمنی کے بھی آداب ہوتے ہیں۔

خبر دل سوز ہی نہیں، جان لیوا بھی ہے۔  ’’سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے ہسپتالوں میں ادویات چوری اور ان کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران حکومت سے تمام ہسپتالوں میں سہولیات، آلات کی غیر فعالیت اور تشخیصی مراکز سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں۔ دوران سماعت اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں عطیہ کردہ خون کی بازار میں فروخت کا انکشاف ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ لوگ خون عطیہ کرتے ہیں، لیکن بازار میں فروخت کر دیا جاتا ہے، عطیہ کردہ خون کی فروخت ناقابل معافی جرم ہے۔‘‘ بہت سے جرائم ناقابل معافی ہوتے ہیں، مگر یہ کیا؟ مریضوں اور بیماروں کے ساتھ بھی دھوکہ؟ یہ دھوکہ کون کر رہا ہے؟ کیا مسیحاؤں کی مرضی کے بغیر کسی لیبارٹری انچارج یا دوسرے ملازم کی جرات ہے کہ وہ عطیہ کیے گئے خون کو سر بازار فروخت کر دے؟ کیا ماہر سرجن کی شراکت کے بغیر ممکن ہے کہ مجبور اور بے بس افراد کے گردے نکال کر انہیں مارکیٹ میں فروخت کر دیا جائے اور مریض کو پتہ بھی نہ چلے؟ ہسپتالوں کا ہی نہیں بلکہ عدالتی و تھانہ نظام سب قابل رحم ہے۔ ہم جس سماج میں پلے بڑھے ہیں، اس سماج کا مجموعی مزاج یہی ہے کہ دھوکہ کیا جائے، کرپشن کی جائے اور پیسہ اکٹھا کرکے دو چار حج کر لئے جائیں۔

کئی ایسے واقعات ذاتی طور جانتا ہوں کہ کسی کے پیٹ میں درد اٹھا، گھر والے اٹھا کے قریب کسی پرائیویٹ ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے فوراً ’’اپینڈکس‘‘ کا کہہ کر پندرہ بیس ہزار میں آپریشن کر دیا۔ تحقیق پہ پتہ چلا کہ پرائیویٹ ہسپتال میں کام کرنے والے سرجن اس کھاتہ داری میں شریک ہوتے ہیں کہ پیٹ درد کے آنے والے مریضوں کو ذبح کیا جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے یہ سرجن شام کے اوقات میں اکثر پرائیویٹ ہسپتالوں میں چند گھنٹے بیٹھتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں سٹنٹ سکینڈل کی انکوائری جاری ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ دو نمبر ادویات مارکیٹ میں سرِعام فروخت ہوتی ہیں اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے؟ کہ آخر نسخہ انہی نے لکھنا ہوتا ہے۔ یہ ہے ہمارا سماجی رویہ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہمیں مردہ جانوروں کا گوشت بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھلا دیا جاتا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے کا رواج تو عام ہے، بلکہ کم اور زیادہ پانی ملے دودھ کی قیمت الگ الگ ہے۔ اس کے باوجود سارے عیب یورپ میں، ہمارے ہر فریب کا ذمہ دار سامراج اور یورپ۔ یہ پرلے درجے کی بد دیانتی اور خود فریبی ہے۔ ہمارا سارا کاروبار صرف ’’حوروں سے وصل‘‘ کے لئے چلتا ہے۔ دو چار تسبیحات پڑھ لو، جنت میں چند عالیشان محل، درخت اور حوریں تیار۔ اس کے بعد جو جی میں آئے کرتے رہو۔ یہ بات دکھ آور ہے۔ نام نہاد "ناصح" دن رات خود ستائی کی سان پر سارے سماج کو چڑھائے رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ساری بد دیانتی غیروں میں ہے۔ ہم تو فقط پیدا ہی جنت میں جانے کے لئے ہوئے۔

کیا وہ سماج مہذب کہلانے کے لائق ہے، جہاں مریضوں کے گردے اور عطیہ کیا گیا خون تک بیچ دیا جائے؟ اس پر ضد یہ کہ ہماری دو چار تسبیحات پر اللہ رب العزت، جو رب العدل بھی ہے، نے ہمارے لئے حوروں کے ریوڑ تیار کر رکھے ہیں؟ چند دن پہلے ہی عدالت عظمٰی نے یوٹیلٹی سٹورز پر ہر طرح کے کوکنگ آئل کی فروخت پر پابندی عائد کر دی تھی کہ ملاوٹ شدہ اور مضر صحت ہے۔ مشروبات، بند دودھ اور کئی اشیا کوالٹی کنٹرول کے ادنٰی معیار کو بھی نہیں چھو سکیں۔ ضد مگر یہ ہے کہ ہم بہت پارسا ہیں۔ ہم دنیا کو فتح کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہے۔ بے شک اللہ رب العزت کی مدد دیانت داروں کے ساتھ ہی ہے۔ جب تک سماجی عدل کے کم از کم معیار پر ہم پورا نہیں اترتے، تب تک مار کھاتے رہیں گے۔ کیا ایسا یورپ و امریکہ میں ممکن ہے کہ عطیہ کئے گئے خون کو فروخت کر دیا جائے؟ وہاں تو میڈیکل سٹور سے بغیر نسخہ کے دوائی تک نہیں ملتی۔ سماجی مسائل ہر جگہ ہیں، مگر ہمارے ہاں تو ہر آن نیا دکھ گلے ملتا ہے۔ آخری تجزیے میں ہم بحثیت مجموعی ڈٹ کے بد دیانتی کرتے ہیں اور ساتھ یہ توقع بھی رکھتے ہیں، اللہ رب العزت سے کہ ہمارے لئے جنت میں عالیشان محل تعمیر کرا دیئے گئے ہوں گے۔ مصحفی یاد آتے ہیں
عجب یہ رسم دیکھی کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی قتل بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬