رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے رمضان کے مبارک مہینہ کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ میں آیت «شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن» و «انا انزلناه فی لیلة القدر» کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : ہم سب مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم رمضان المبارک کے مبارک مہینہ کے شب قدر میں نازل ہوا ہے لیکن دوسری آیتوں میں پڑھے نگے کہ قرآن کریم تدریجی صورت میں ۲۳ سال کی مدت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے وضاحت کی : اب سوال ہوتا ہے کہ کس طرح ان آیتوں کو ایک ساتھ جمع کیا جائے ، کیونکہ بعض آیات کہتی ہیں کہ قرآن کریم رمضان المبارک کے مہینہ شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری آیات اس کے خلاف بیان کر رہی ہیں ؛ حالانکہ یہ سوال بہت ہی جدی نہیں ہے اور مفسرین جب اس آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو اس کا جواب مختلف اعتبار سے بیان کرتے ہیں لیکن شیخ مفید مرحوم عقاید صدوق کی شرح میں اس کا بہترین جواب بیان کیا ہے ۔
انہوں نے شیخ مفید مرحوم کے جواب کو بیان کرتے ہوئے بیان کیا : شیخ مفید کہتے ہیں جیسا کہ تمام آیات کا صدق «قرآن» پر ہوتا ہے اور اس کے زیادہ تر حصے کو بھی قرآن کریم کہتے ہیں اس وجہ سے ہم لوگوں کے پاس قرآن کریم کے سلسلہ میں دو اصطلاح ہے یک ۱۱۴ سورہ کا مجموعہ جس کی چھ ہزار سے زیادہ آیتیں ہیں اور دوسری کہ اس آسمانی کتاب کی زیادہ تر حصہ ؛ اس وجہ سے مشکل نہیں ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حصہ ماہ مبارک رمضان میں نازل ہوا ہے اور خداوند عالم فرماتا ہے کہ رمضان المبارک کے شب قدر میں قرآن نازل ہوا ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے تاکید کی : اس سلسلہ میں کہ قرآن کریم کی بعض آیات شب قدر اور رمضان المبارک میں نازل نہیں ہوا ہے اس کا یقین پایا جاتا ہے کلی طور پر وہ دو آیت کہ ابتدائے بحث میں بیان ہوا ہے کہ رمضان المبارک میں نازل نہیں ہوا بلکہ رمضان المبارک میں قرآن کے نزول کی حکایت کرتا ہے ۔
انہوں نے قرآن کریم کی آیات کی تدریجی نزول کی حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : اس مسئلہ کی حکمت خود قرآن کریم میں آیا ہے ، اس وقت جب پیغمبر اکرم سے سوال ہوا ہے کہ کیوں قرآن کریم ایک بار آپ پر نازل نہیں ہوا ہے تو خداوند عالم نے آیت نازل کی اور فرمایا « قرآن کریم کی آیات کے تدریجی نزول کی حکمت قلب پیغمبر کا استحکام ہے » ؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا کہ جناب جبرئیل ایک مرتبہ نازل ہوتے اور تمام قرآن کریم پیغمبر اکرم ص پر نازل کر دیتے تو اس کے بعد پیغمبر اکرم ص کا رابطہ عالم وحی سے منقطع ہو جاتا لیکن ان کا عالم اعلی سے مسلسل رابطہ ان کے قلب کی قوت میں اضافہ کا سبب ہوتا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے بیان کیا : اتفاق شیعہ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم ص ۲۷ رجب کو مبعوث ہوئے اور ساتھ سورہ مبارک علق کے ۵ آیتیں تھیں کہ یہیں چیز اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ قرآن رجب کے مہینہ میں بھی نازل ہوا ہے ، اسی وجہ سے رمضان المبارک کے مہینہ میں نزول اور تدریکی نزول کے درمیان تناقض نہیں پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ چھ ہزار سے زیادہ قرآن کریم کی آیتیں رمضان کے مبارک میہنہ میں نازل ہوا ہے تو اس میں اشکال و شبہہ ہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کے اختمامی مراحل میں عالم و علم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : اس مطلب کو بھی یہاں پر بیان کر دوں کہ پیغمبر اکرم ص سے پہلا کلمہ جو خطاب ہوتا ہے وہ پڑھو ہے اس کے با وجود کہ پیغمبر ص نے کہیں درس نہیں پڑھا ہے اسی وجہ سے یہ امت اسلام مسلسل علم و معنویت میں ترقی کرتا جا رہا ہے اور علم و دین کے ساتھ دنیا پر تسلط پیدا کرے گا ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۷۹۲/