‫‫کیٹیگری‬ :
13 June 2017 - 20:26
News ID: 428529
فونت
آیت الله سبحانی:
حضرت آیت الله سبحانی نے قرآن کریم کی دقیق تفسیر کی ضرورت کی تاکید کی ہے اور کہا : جو لوگ چاہتے ہیں اپنے عقیدہ کو ہر طرح سے ثابت کریں وہ غلط طریقے سے آیات کی شرح کرتے ہیں اور اس آسمانی عظیم کتاب کی آیتوں کی غلط تفسیر پیش کرتے ہیں ۔
آیت الله سبحانی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے رمضان کے مبارک مہینہ کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خاتمیت کے سلسلہ میں بیان کئے گئے شبہہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : میرا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آخری پیغمبر الهی ہیں اور ان کا دین آخری دین الهی ہے اور ان کی کتاب بھی آخری کتاب الہی ہے اور ان کے بعد نئی شریعت نہیں آئی اور نہیں آئے گی ۔

انہوں نے آیات قرآن کریم کی صحیح فہم کی ضرورت کی تاکید کرتے ہوئے بیان کیا : بعض لوگ جن کے دل میں نور نہیں پایا جاتا ہے وہ سورہ مبارکہ اعراف کی ۳۵ دین آیت سے حوالہ پیش کرتے ہوئے کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے « اے بنی آدم اگر ہماری طرف سے کوئی رسول تمہارے لئے آئے اور تمہارے لئے آیات لائے تو تم میں سے ہر شخص ان کی اطاعت کرو ان لوگوں کے لئے خوف و حزن نہیں ہے » یہ اس معنی میں ہے کہ اگر حقیقت میں پیغمبر اسلام (ص) خاتم النبین رہے ہیں تو قرآن کریم کے اس آیت کو کیا کرنا چاہیئے ؟

حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے اس سوال کے جواب میں قرآن سے قرآن کی تفسیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یاد دہانی کی : اگر چاہتے ہیں کہ صرف اسی آیت پر توجہ کریں اور اس سے قبل اور بعد کی آیت کو ملاحظہ نہ کریں تو یہ شبہ صحیح لگتا ہے لیکن یہ استدلال کا صحیح طریقہ نہیں ہے کیونکہ ہر آیت کی تشریح کے لئے آیات کے درمیان رابطہ پر توجہ کرنا چاہیئے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : سورہ مبارک اعراف کا یہ خطاب پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ سے قبل کا ہے یعنی جب خداوند عالم نے حضرت آدم (ع) کو پیدا کیا اور حضرت آدم (ع) زمین پر آئے اس زمانہ میں خداوند عالم نے یہ خطاب فرمایا جس کو پیغمبر اکرم (ص) نے نقل کیا ہے نہ یہ کہ جس زمانہ میں بھی پیغمبر کی علامت دیکھی جائے فورا اس پر ایمان لایا جائے ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے سورہ مبارکہ اعراف کے ۳۵ وین آیت سے قبل کی آیت کی طرف اشارہ رکرتے ہوئے بیان کیا : یہ خطاب حضرت آدم علیہ السلام اور حوا سے ہے یعنی جب حضرت آدم علیہ السلام جیسے بھی شیطان کے فریب میں مبتلی ہوئے اور آسمان سے زمین پر ہبوط کیا ؛ اس سورہ مبارکہ اعراف کی سیاق کی آیات کو ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب اول تخلیق سے متعلق حضرت آدم (ع) کے زمانہ سے ہے اور اس میں بعض نصیحت شامل ہے کہ خداوند عالم نے حضرت آدم اور ان کی اولاد کے لئے کی ہے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو کے اختمامی مراحل میں وضاحت کی : اس مسائل و مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم لوگ قرآن کریم کے سمجھنے کے سلسلہ میں اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ قرآن کریم کا معنی وہ لوگ کریں جو قرآن کریم سے مانوس ہوں ، لیکن جو لوگ چاہتے ہیں اپنے عقیدہ کو ہر طرح سے ثابت کریں وہ غلط طریقے سے آیات کی شرح کرتے ہیں اور اس آسمانی عظیم کتاب کی آیتوں کی غلط تفسیر پیش کرتے ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۵۸/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬