رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ حضرت آیت الله حسین مظاهری نے اصفہان شہر کے مسجد امیرالمؤمنین (ع) میں منعقدہ اپنے قرآن کریم کے جلسہ تفسیر میں کہا : شہید اپنے شہادت کے وقت عند اللہی مقام تک پہوچ جاتے ہیں ۔
انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سو چوونویں آیت «وَلا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لا تَشْعُرُونَ» کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وضاحت کی : یہ قرآن کریم میں کئی بار تکرار ہوا ہے اور یہ تکرار تاکید کے لئے ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اس آیت میں مسائل کی اہمیت بیان ہوتی ہے ؛ قرآن کریم فرماتا ہے فکر نہ کرو شہدا مرے نہیں ہیں بلکہ زندہ ہیں اور خداوند عالم کی مہمانی و ضیافت میں روزی حاصل کرنے میں مشغول ہیں اور یہ امور جب تک خداوند عالم کی خدائی جاری ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اس بیان کے ساتھ کہ حیات لفظ کے مختلف معنی بیان ہوئے ہیں کہا : حیات کا پہلا معنی سورہ مبارک بقرہ کے ایک سو چوون ویں آیت میں ایثار ، شہادت و جودانگی کے معنی میں ہے ؛ تشیع کی حیات شیعوں کی شہادت سے حاصل ہوتی ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے بیان کیا : بنی امیہ اس طرح سے منصوبہ بندی کی تھی کہ اسلام کی بنیاد کو ختم کر دے لیکن امام حسین علیہ السلام کے خونی قیام کہ جس میں ان کی اپنے اصحاب کے ساتھ شہادت واقع ہوئی بنی امیہ کا منصوبہ ناکام ہو گیا ؛ اگر امام حسین علیہ السلام کا قیام اور ان کی شہادت نہیں ہوتی تو اس وقت اسلام کی کوئی خبر نہیں ہوتی ؛ اگر آٹھ سال دفاع مقدس میں ہمارے مجاہدین نہ ہوتے تو شیعت سخت خطرہ میں ہوتا ؛ مجاہدین شہدا نے شیعت کی حفاظت کی ہے ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اس بیان کے ساتھ کہ حیات کا عظیم رتبہ شہدا سے مخصوص ہے بیان کیا : اس وقت اگر ہمارے معاشرے کے لوگوں میں شہادت طلبی روحیہ نہیں پائی جاتی تو دشمن آسانی سے ہمارے معاشرے پر غالب ہو جاتا اور اس مقدس نظام کو ختم کر دیتا ؛ اسلامی جمہوریہ ایران شہدا کے خون سے زندہ ہے اور اس ملک کے لوگ میدان میں ہمیشہ موجود ہیں اپنی تمام چیزوں کو اس راہ میں دے دینگے تا کہ دین محفوظ رہے ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : امید کرتا ہوں امام زمانہ (عج) کی قیادت اور شیعوں کی مدد کے ذریعہ اسلام کا پرچم پوری دنیا میں لہرائے گا اور یہ عالم اسلامی قانون کے توسیع سے گلستان ہو جائے گا ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے بیان کیا : حیات کا دوسرا معنی ، شہدا کا حقیقی معنی میں زندہ ہونا ہے ؛ ہم لوگ موت کے بعد زندگی و عالم برزخ کے قائل ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی اس دنیا میں حقیقی مسلمان رہا ہے تو عالم برزخ میں اس کے ساتھ سہولتیں ہیں اور جو شخص خداوند عالم کا منکر یا خداوند عالم کا مشرک تھا وہ عالم برزخ میں عذاب کے حالت میں ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے کہا : خداوند عالم کے بندوں میں سے خاص لوگ ہیں جو برزخی آنکھ رکھتے ہیں ، ان لوگوں کا تعلق خداوند عالم سے مستحکم ہے اور دعا و نماز کے درمیان خداوند عالم سے گفت و گو کرتے ہیں ؛ لوگ ہیں جو اخص الخواص ہیں اور وہ اسی دنیا میں خداوند عالم کی میزبانی حاصل کرتے ہیں ؛ سورہ مبارکہ یسین کی اٹھانویں آیت میں فرماتے ہیں «سَلامٌ قَوْلا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ» خداوند عالم اخص الخواض کو سلام کرتا ہے اور یہ بزرگان اس مسئلہ سے مشعوف ہو جاتے ہیں کہ قابل بیان نہیں ہے ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : مشخص نہیں ہے کہ اخص الخواص کی بہشت میں رزق و روزی کیا ہے ، یہ لوگ اس مقام پر ہیں کہ سوائے خداوند عالم کے کسی اور چیز کو درک نہیں کرتے ہیں ، روایت میں بیان ہوا ہے کہ بہشتی نعمتیں خداوند عالم سے شکایت کرے نگے کہ تمہارے یہ بندے مجھ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں اور خداوند عالم نعمتوں کے جواب میں فرماتا ہے ، میرے بندے کی تمام توجہات مجھ میں مشغول ہے اور ان کو چھوڑ دو وہ اس لذت میں باقی رہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی : امام معصومین علیہم السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں ، خداوند عام اپنے مقرب شخص پر ہر روز ۳۶۰ بار نظر ڈالتا ہے کہ ہر نظر ڈالنے پر مقرب افراد کے سعہ وجودی میں اضافہ ہوتا ہے ؛ یہ عند الہی مقام ہے ؛ سورہ مبارکہ فجر کے اختمام میں اخص الخواص افرد کو خطاب کر کے کہا جاتا ہے کہ اے نفس اطمینان تک پہوچ گئے ، جنت تمہارے لئے بہت چھوٹا ہے آ جاو الہی قرب میں چلے جاو ، اے وہ شخص جو خداوند عالم سے راضی ہو اور خداوند عالم بھی تم سے راضی ہے ، جنت میں آ جاو اور الہی قرب تمہارا قیام گاہ ہے ؛ راضیة مرضیة مقام بہت عالی مقام ہے کہ اس مقام میں حاضر ہونے کے بغیر اس کو درک نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس میں کیا لذت ہے ، یہ مقام وہ جگہ ہے کہ کوئی اور کوئی شخص بھی انسان کے دل میں نہیں ہے سواے خداوند عالم کے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اپنی گفت و گو کے اختمامی مراحل میں بیان کیا : شہید اپنے شہادت کے وقت مقام عند الہی تک پہوچ جاتے ہیں ؛ ایک مجاہد بیان کر رہے تھے کہ میں زخمی ہوا تھا لیکن میں فکر کر رہا تھا کہ شہید ہو گیا ہوں اور انتظار کر رہا تھا کہ حور العین آئیں اور مجھ کو اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں لیکن کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد جب کوئی نہیں آیا تو سمجھ گیا کہ میں ابھی زندہ ہوں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۱۱۰۳/