رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مفسرعصر حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے اسراء سنٹر میں ہونے والے ایک پروگرام میں نهج البلاغہ کے ۶۹ خط کی جانب اشارہ کیا اور کہا: مولائے کائنات نے حارث بن عبدالله ہمدانی کو تحریر کردہ اس خط میں انہیں « الهی ریسمان سے متمسک رہنے کی تاکید کی ہے » ۔
اس مفسرعصر نے یہ کہتے ہوئے کہ اللہ کی رسی سے تمسک اس وقت مشکلات کو حل کرسکتا ہے جب یہ رسی اس کی بارگاہ سے جڑی ہو کہا: خداوند متعال نے انسانوں کے درمیان قرآن کریم کو اس طرح حائل کیا کہ اس کا ایک سِرا خود اس کے ہاتھوں میں ہے تو اس کا دوسرا سِرا انسان کے ہاتھ میں ہے ، اگر ہم اس حبل متین سے متمسک رہے تو معنویت کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہوں گے اور یہ حبل متین ہمیں دوزخ میں گرنے سے محفوظ رکھے گی ۔
انہوں نے نهج البلاغہ کے 69 ویں خط کے ٹکڑے «وَاسْتَنْصِحْه» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: نصیحت کرنا یعنی یہ کہ انسان، دوسروں پر اپنی گفتار کا لبادہ اوڑھائے ، دوسروں کو آبرو ریزی سے بچائے ، انسان قران کریم کے واجب و حرام سے پر عمل کرے اور انبیاء الھی کے سلسلے میں موجود قصوں کی تصدیق کرے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے مذکورہ خط کے دیگر ٹکڑے «وَاعْتَبِرْ بِمَا مَضَي مِنَ الدُّنْيَا لِمَا بَقِي مِنْهَا» کی جانب تشریح کرتے ہوئے کہا: دنیا کی شناخت کا علم ، کہ افسوس جو حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی میں دونوں ہی میں نہیں ہے ، مگر اہل بیت علیھم السلام نے خوب دنیا کی معرفی کی ہے کہ اگر ہم دنیا کو بخوبی نہ پہچان لیں تو اس دنیا میں ٹھیک سے زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔
قرآن کریم کے اس عظیم مفسر نے اس خط کے دیگر حصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس خط میں خداوند متعال کے نام کے احترام کی تاکید کی گئی ہے ، لہذا اس حوالے سے انسان کی عمر صحیح راستہ پر گزرے اور وہ بہکے نہیں اپنے تمام کام کا آغاز اللہ کا نام سے کرے ، اس عمل کا مقصد ہمیں اس بات کا درس ہے کہ ہم اپنی حیات میں واجب یا مستحب میں مصروف رہیں ۔
انہوں نے اس ٹکڑے «و أکثر ذکر الموت» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ موت نابودی ہے ، مگر حقیقت یہ ہے کہ موت ایک ڈھانچے سے نکل کر دوسرے ڈھانچے میں منتقل ہونا ہے ، اگر انسان موت کا اس طرح تصور کرے تو موت اس کے لئے نشاط و شادابی کا وسیلہ ہے ، موت کے لئے اس طرح کا تصور معاشرے سے اقتصادی ، علمی ، اخلاقی اور دیگر مشکلات کے برطرف کرنے کا سبب ہوگی ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے مولائے کائنات کے اس خط کے دیگر حصے کی جانب اشارہ کیا اور کہا: انسان ھرگز ایسا عمل انجام نہ دے کہ اگر اس عمل سے پردہ اٹھ جائے تو اس کی عزت چلی جائے ، قران کریم کی آیات اس بات کو واضح طور سے بیان کرتی ہیں کہ خداوند متعال انسانوں کے اعمال پر شاہد و ناظر ہے ، قیامت کے دن انسان کے تمام کاموں سے پردہ اٹھا دیا جائے گا، لہذا ہم ایسا کام نہ کریں جس اس دن آبرو چلی جائے ۔
انہوں نے نهج البلاغہ کے 69 ویں خط کے دیگر ٹکڑے «وَلاَ تُحَدِّثِ النَّاسَ بِکُلِّ مَا سَمِعْتَ بِهِ» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: اگر چہ انسان آزاد اور مختار ہے مگر اسے دوسروں کی آبرو ریزی کا حق نہیں ہے کیوں کہ انسان کی عزت ، خدا کی ہے ، میڈیا والے ان پر باتوں توجہ کریں اور آگاہ رہے کہ انسان ہر سنی چیز کو تحقیق کئے بغیر نقل و نشر نہیں کرسکتا ۔
انہوں نے آخر میں اس خط کے دیگر حصے «وَاکْظِمِ الْغَيْظَ، وَتَجاوَزْ عِنْدَ المَقْدِرَةِ، وَاحْلُمْ عِنْدَ الْغَضَبِ، وَاصْفَحْ مَعَ الدَّوْلَةِ» کی تشریح کی اور کہا: موجودہ زمانے کی زیادہ تر مشکلات کی بنیاد اور عدالتوں میں مراجعہ کی وجہ یہ غصے ہیں ، «صفح» عفو و بخشش سے بھی بالاتر ہے ، یعنی انسان اپنی یاد داشت کے صفحے کو پلٹ کر دوسروں کی بدی کو فراموش کردے ۔ /۹۸۸/ ن۹۷۰