رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد و قرآن کریم کے مشہور مفسر نے ایران کے دماوند شہر کے احمد آباد گاوں میں اپنے ہفتگی جلسہ اخلاق میں اسلام میں سماجی اخلاق کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس جلسہ میں بیان کیا : یہ توفیق آئمہ اطہار علیہم السلام نے ہم لوگوں کو تعلیم دی ہے اور ہم لوگوں کو کہا ہے کہ تنہائی سے دوری کے لئے خداوند عالم سے بات کرو اور نماز پڑھو ، کیوں کہ « الصَّلَاةُ خَیرُ مَوْضُوعٍ » ہے : «فَمَنْ شَاءَ أَقَلَّ وَ مَنْ شَاءَ أَكْثَر» دوسری طرف جب بھی چاہتے ہو خداوند عالم سے مخاطب رہو اور اچھی باتیں سنو تو قرآن کریم کی تلاوت کرو ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : ایک اہم مسئلہ جو قیامت میں بیان ہوگا یہ ہے کہ بعض لوگ شفاف و نورانی چہرے کے ساتھ آئے نگے اور بعض کا چہرہ سیاہ و تاریک ہوگا ۔ جب چہرہ کہا جاتا ہے تو اس کا مقصود صورت نہیں ہے ؛ کبھی کبھی انسان کی تمام وجود کو صورت کے نام سے جانا جاتا ہے ، فرماتے ہیں : «وُجُوهٌ یوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ ٭ إِلی رَبِّها ناظِرَةٌ» ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے رسول اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرام (علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء) سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا : «نَضَّرَ اللَّهُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِی فَوَعَاهَا وَ بَلَّغَهَا مَنْ لَمْ یبْلُغْهُ» جو شخص بھی یہ تین محوری عنصر کی حفاظت کرے گا انشاء اللہ قیامت کے روز اپنے تمام وجود کے ساتھ ہشاش و بشاش و شاداب و خوش و خرم محشور ہوگا ؛ وہ مخاطب سمجھے کہ باتوں کی قدر جانتا ہے ، فکر کے کسوٹی پر تحلیل کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اور معاشرے میں رائج کرتا ہے ۔ فرمایا ایسے مخاطبین قیامت کے روز بشاش ہونگے ، یہ پیغمبر اکرم کی دعا ہے ، اور پیغمبر کی دعا یقینا قبول ہوتی ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصہ میں شرک کے خطرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : سورہ مبارکہ «یوسف» کی آخری حصہ میں ہے : «وَ مَا یؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلّا وَ هُم مُشْرِكُون»؛ ہماری بری چیز صرف شرک ہے ۔ فرمایا بہت لوگ مشرک ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ شرک پر ہیں ، یہ کہ ہر نیک کام انجام دیتے ہیں اور ان کا دل چاہتا ہے کہ ان کا نام لیا جائے ، یا ان کا نام سب سے پہلے ہو یہی شرک ہے ۔ امام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کس طرح اکثر مومن مشرک ہیں ؟ امام نے فرمایا یہی کہ وہ کہتے ہیں اول خدا دوم فلان ! کیا خدا پہلے میں سے ایک ہے کہ جو دوسرا بھی رکھتا ہو ؟ یہ کہ شخص کہتا ہے اگر فلان شخص نہ ہوتا تو میں نابود ہو جاتا ! یا اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو ہماری مشکلات حل نہیں توتی ! یہ سب شرک کا مصداق ہے ، تو اس شخص نے سوال کیا کہ کیا کہا جائے ؟ حضرت نے فرمایا کہو کہ خداوند عالم کا شکر ہے کہ میری مشکلات کو فلاں طریقہ سے حل کیا ۔ کیوں کہ قدرت کے تمام راستے اس کے پاس ہے ۔ کوئی شخص بھی جہاں سے بھی کوئی کام انجام دیتا ہے خداوند عالم کی اجازت سے ہے ۔
انہوں نے معاشرے کی اقتصادی برائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم نے خانہ کعبہ کے ساتھ دو اہم نعمت قرار دی : «فَلْیعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَیتِ ٭ الَّذِی أَطْعَمَهُم مِن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِنْ خَوْفٍ»، فرمایا خدا کا شکر کہ لوگوں کے اقتصاد کو مہیہ کیا ، اور لوگوں کی سلامتی عطا کی ۔/۹۸۹/ف۹۷۰/