رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قانونی جدوجہد کرنے والے سعودی کارکن یحی عسیری نے کہا ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل، سعودی عرب کے اندر ایک وحشتناک سسٹم کی نشاندہی کرتا ہے اور خاشقجی نے واشنگٹن پوسٹ میں جو مقالات تحریر کیے ہیں ان میں انہوں نے محمد بن سلمان کو اصلاح پسند بنا کر پیش کیے جانے کی مخالفت کی تھی۔
قانونی امور میں سرگرم ایک اور سعودی کارکن عبدالعزیز الموید نے کہا ہے کہ سعودی حکومت کے مخالفین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حکومت، ان کا تعاقب کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس اقدام کے خلاف ٹھوس موقف اپنائیں۔
نظریاتی قیدیوں کے نام سے معروف ٹوئیٹر اکاونٹ نے لکھا ہے کہ مخالفین، نیز سماجی اور قانونی کارکنوں کے قتل کے بعد آل سعود کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے جو اس سے پہلے تک دانشوروں اور نظریاتی مخالفین کو گرفتار اور قیدی بناتی رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جمال خاشقجی منگل کے روز ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں داخل ہوئے تھے مگر وہاں سے لاپتہ ہو گئے۔
ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے سے پہلے سعودی قونصلیٹ میں تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
جمال خاشقجی کا نام سعودی عرب کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھا اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے ستمبر دو ہزار سے سترہ سے ترکی میں مقیم تھے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰