رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس کے تدارک اور عوام کو انصاف کی فراہمی کی بجائے ملک میں افراتفری، کھلبلی، الزام تراشی اور استعفوں کے مطالبات کا ایسا شور اٹھتا ہے کہ جو معاشرے میں فکری انتشار کا باعث بنتا ہے، سانحات کے تدارک کے ساتھ ایسے سانحات کے مرتکبین کے تعین کے حوالے سے پالیسی وضع کی جائے، تمام سیاسی جماعتوں اور سرکاری ذمہ داروں کو باہمی مشاورت کرنا ہو گی، قیام امن نئے قوانین سے نہیں بلکہ پہلے موجود قوانین پر عملدرآمد سے ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایک پاکستانی شہری کو اسرائیلی ویزہ دلوانا ڈرامہ، معاملے کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو اس کے بعد کھلبلی اور افراتفری مچ جاتی ہے اور موجودہ حکمران سابقین اور پہلے والے موجودہ حکمرانوں پر شدید تنقید اور ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں اور پھر وزیراعظم سے وزیراعلی سمیت اعلیٰ عہدیداروں کے استعفوں تک بات جا پہنچتی ہے، جو ایک جانب ملک میں فکری انتشار کا باعث بنتا ہے تو دوسری جانب عوام میں اضطراب بھی پیدا کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل سے سے عوام خود کو مزید عدم تحفظ کا شکار سمجھتے لگ جاتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ سانحہ کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے مرتکبین کا تعین کیا جائے اور یہ تعین بھی کیا جائے کون سے لوگ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہ ہوئے یا کس سرکاری اہلکار نے اپنے فرائض انجام نہیں دیئے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے معروضی حالات دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں تمام سیاسی جماعتوں اورسرکاری ذمہ داروں کو باہمی مشاورت سے طے کرنا ہوگا کہ جب ملک میں کوئی سانحہ رونما ہوجائے تو ملک میں افراتفری کا سدباب کیسے کیا جائے، کس نوعیت کا سانحہ ہوتو کون ذمہ دار ہوگا، کس حیثیت تک کے افسران کو معطل یاتبدیل کیا جاسکے گا، اس سلسلے باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں ایک جانب عوام احساس تحفظ کا یقین دلایا جاسکے تو دوسری جانب سانحات کے محرکات تک پہنچ کر انکا تدارک کیا جا سکے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پیغام پاکستان سمیت دیگر متفقہ دستاویزت اہم لیکن ضروری نہیں ہر دستاویز کو قانونی شکل دی جائے یا اس کی بنیاد پر قیام امن کے نام پر قانون سازی کے بہانے تلاش کئے جائیں اس کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ قوانین پہلے سے موجود ہیں، ہر معاملے پر سیر حاصل بحث کے بعد قوانین وضع کئے گئے ہیں، ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے عوام کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے۔
انہوں نے پاکستانی شہری فیصل خالد کو اسرائیل بارے ویزا حاصل کرنے بارے خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے حق میں ڈرامہ قرار دیتے ہوئے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لینے اور سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/