رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مشہد مقدس کے امام جمعہ آیت اللہ سید احمدعلم الہدی نے کہا : امیرالمومنین (ع) کی مظلومیت پیامبر اکرم (ص) کی مظلومیت کا ہی تسلسل ہے ، رسول اکرم (ص) نے اپنی ایک حدیث میں اس اہم بات کی جانب اشارہ کیا تھا کہ کسی بھی پیغمبر کو اتنی اذیت نہیں دی گئی جتنی مجھے دی گئی ہے۔
انہوں نے رسول اکرم ص کے مقاصد و ہدف کی تکمیل کو بیان کرتے ہوئے کہا : پیغمبراسلام نے اسلامی نظام کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اس کا انتظام چلانے والوں کے نام بھی بتا دئے تھے اور اس اسلامی نظام کے مقاصد کی ضامن امیرالمومنین علی (ع) اور ائمہ اطہارعلیھم السلام کی رہبری اور امامت تھی۔
مشھد مقدس کے امام جمعہ نے بیان کیا : حضرت علی (ع) پر جتنے بھی مظالم ڈھائے گئے وہ دراصل خود اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) پر حملہ تھا۔ امام علی (ع) کی ایک روایت ہے کہ رحلت پیغمبر (ص) کے بعد جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا ، اس نے مجھے ایک ایسے دو راہے پر کھڑا کردیا تھا جس میں ایک طرف "صبر" اور دوسری جانب "اقدام جنگ" تھا ، کہ میں نے صبر کیا اور یہ صبر میری آنکھوں میں کانٹے کی مانند تھا ۔
انہوں نے امام علی علیہ السلام کی لوگوں کو معرفت نہ ہونے کو بیان کرتے ہوئے کہا : جب عوام نے کئی برسوں کے بعد بے انصافی کو محسوس کیا تو حضرت علی (ع) کے گھر پر ہجوم کی صورت میں آگئے اور ان کی بیعت کرلی، لیکن اس لمحے بھی انھوں نے حضرت علی (ع) کو صرف ایک عادل حکمران کے طور پر چاہا تھا۔ عوام الناس حضرت علی کی ولایت اور امامت سے ہنوز ناواقف تھے۔
مشہد کے امام جمعہ نے اس بات کی جانب بھی توجہ دلائی کہ حضرت علی (ع) کی حکومت کی پوری مدت اس کوشش میں گزری کہ اسلامی نظام پوری طرح قائم ہوجائے۔ انھوں نے
آیت اللہ علم الہدی بے کہا : حضرت علی (ع) کے کردار اور عادلانہ اقدام بعض لوگوں کے لئے نا گوار تھے اور یہی بات باعث بنی کہ وہ دوبارہ انھیں اپنے ظلم کا نشانہ بنایئں۔
انہوں نے مولا امیر المومنین کی عملی اسلام پیش کرنے نہیں دئے جانے کو مظلوم جانا ہے اور کہا : اسلامی تعلیمات اور بنیادوں کو عملی شکل دینے کی راہ میں حضرت علی (ع) کا تنہا رہ جانا بھی ان کی ایک اور مظلومیت کی نشانی ہے۔
آیت اللہ علم الہدی نے امام علی علیہ السلام کی مظلومیت کو صرف شہادت نہیں جانا ہے اور بیان کیا : حضرت علی (ع) کی مظلومیت ان کی شہادت کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ شہادت کے بعد بھی ایک مدت تک منبروں سے اور نماز جمعہ کے نام نہاد خطبوں میں ان کی شان میں گستاخی کی جاتی رہی