رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کی ایک اور بنیادی وجہ فعال نظام نہ ہونا ہے، ابھی تک حکومتی سطح پر زائرین سمیت متاثرین کی درست معلومات تک نہیں مل سکیں، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ نے اس سسٹم پر مزید سوالات اٹھادیئے ہیں ، زائرین جب پہلے دن سے حکومتی تحویل میں ہیں تو پھر ان سے کورونا کیسے پھیل گیا؟
انہوں نے وضاحت کی : ایسے کونسے افراد ہیں جو بغیر سکریننگ گھروں کو چلے گئے ؟افسوس 37ایام مختلف قرنطینہ سنٹرز میں رکھنے کے باوجود زائرین کو گھر وں کو جانے نہیں دیا جارہا، ایسی ناقص پالیسی سے صحت مند افراد کے متاثر ہونے کا جہاں شدید خدشہ ہے وہیں مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے، ڈاکٹرز ، پیرامیڈیکس سٹاف کے تحفظات بھی اسی نظام کی خرابیوں کی وجہ سے ہیں ، اسی بوگس سسٹم کا شکار تبلیغی افراد بھی ہوگئے، ابھی تک لاک ڈاﺅن سمیت دیگر اقدامات بھی ابہام کا شکار ہیں، عدلیہ کی جانب سے بھی طبی امور پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ کورونا وائرس انسانی المیہ تھا مگر افسوس اس حوالے سے جو حکمت عملی، پالیسیاں مرتب کی جاناچاہئیں تھیں وہ اقدام ہی نہیں اٹھائے گئے، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ اگر درست ہے تو پھر واضح ہوگیا کہ ہمارے نظام میں بہت بڑی خرابیاں ہیں زائرین تو ملک میں آتے ہی حکومتی تحویل میں چلے گئے اور ہماری اطلاعات کے مطابق37روز سے زائد وہ دوہری مدت بھی پوری کرچکے اور آج تک مقامی سطح پر قرنطینہ سنٹرز میں موجود ہیں تو پھر ان کے ذریعے کیسے کورونا پھیل گیا؟اگر اس بات پر یقین کیا جائے کہ کچھ افراد بغیر سکریننگ کے گھروں کو چلے گئے تو وہ افراد کونسے تھے؟اس وقت حکومتی مشینری کہا ں تھی؟پھر ان کے ذریعے اگر یہ موذی وائرس پھیلا تو ان کی نشاندہی کیسے ہوئی؟پھر تدارک کےلئے کیا اقدام اٹھائے گئے؟افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک مستند اطلاعات تک نہیں مل رہیں جو نظام پر بڑا سوالیہ نشان ہے ۔اسی بوگس نظام کا شکار تبلیغی افراد بھی ہوگئے جنہیں بروقت آگاہی ہی فراہم نہ کی گئی ۔
ان کا مزید کہناتھا کہ لاک ڈاﺅن کی صورتحال ہو، عوام کی اشیاءکی فراہمی ہویا طبی سہولیات کی فراہمی ، ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہورہا، اسی باعث کبھی تفتان جانے سے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس انکار کردیتے ہیں،اسی طرح پائلٹس اور کرو ایس او پی کی مخالفت پر شاکی ہیں اور کبھی حفاظتی انتظامات نہ ہونے کا گلہ ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس کرتے ہیں جبکہ عدلیہ کی جانب سے بھی بعض طبی امور پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، ذمہ داران کو چاہیے کہ موجود صورتحال کے پیش نظر پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کےساتھ صحیح سمت میںفوری اور ہنگامی اقدامات اٹھائیں۔