‫‫کیٹیگری‬ :
05 September 2015 - 15:14
News ID: 8422
فونت
قائد انقلاب اسلامی :
رسا نیوز ایجنسی ـ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا : توسیع پسندانہ نظام کی زبان میں لبنان اور فلسطین کی مزاحمتی فورسز کی قانونی دفاعی سرگرمیاں دہشت گردی سمجھی جاتی ہیں اور علاقے میں امریکا سے قربت رکھنے والے مستبد ممالک کے اقدامات انسانی حقوق کے منافی نہیں سمجھے جاتے۔




رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائیٹ سے منقول رپورٹ کے مطابق قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بزرگ علمائے دین پر مشتمل کونسل 'مجلس خبرگان' کے ارکان سے ملاقات میں اس کونسل کو اسلامی جمہوریت کا مظہر کامل اور معاشرے کی طمانیت و فکری آسودگی کا سرچشمہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے تمام عہدیداران کو اسلامی فکری نظام کے دائرے میں آگے بڑھنے اور تسلط پسندانہ نظام کی روش اور طرز سخن کو اپنانے سے اجتناب کی سفارش کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ آج علمائے دین، یونیورسٹیوں سے وابستہ مفکرین اور عہدیداران کی سب سے اہم ذمہ داری دشمن کی سازشوں اور منصوبوں کی طرف سے ہوشیار رہنا، اس کی نشاندہی کرنا اور نوجوانوں کی قابلیت و توانائی اور ملک کے اندر موجود وسیع صلاحیتوں کی مدد سے اسلام کے فکری ستونوں کے دائرے میں ارتقائی منزلیں طے کرنے والے ملک کے روشن مستقبل کی تشریح کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ اور اس کے بعد کے حالات سے متعلق اہم نکات کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں قرآن کریم کی ان آیتوں کا حوالہ دیا جن میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور اللہ کے وعدوں پر بھروسہ رکھنے کے عوض مومنین کے قلوب پر اللہ کی جانب سے 'سکینہ' (آسودگی اور طمانیت) نازل کئے جانے کا ذکر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کی کونسل کو معاشرے کی طمانیت و آسودگی کا مقدمہ قرار دیا اور اس کی وجہ کی تشریح میں فرمایا: "ماہرین کی کونسل واحد ادارہ ہے جس میں دو انتخابات ہوتے ہیں۔ ایک تو کونسل کے ارکان کا انتخاب ہے جو عوام کے ہاتھوں انجام پاتا ہے اور دوسرے رہبر انقلاب کا انتخاب ہے جو اس کونسل کے ہاتھوں عمل میں آتا ہے۔"
آپ نے فرمایا کہ ان دونوں انتخابات کی وجہ سے یہ کونسل ایک طرف تو دینی جمہوریت کا بھرپور نمونہ ہے اور دوسری جانب اسلامی احکامات و اقدار کی حکمرانی کا آئینہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "جب ان منفرد خصوصیات کی حامل 'مجلس خبرگان' تشکیل پا جاتی ہے اور اس کے ارکان اپنی فکری خود مختاری اور آگاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس سے معاشرے میں طمانیت و آسودگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ماہرین کی کونسل کے دونوں انتخابات میں ضروری توجہ اور فکری خود مختاری کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ آپ نے فرمایا:" فکری خود مختاری کا یہ مطلب ہے کہ اس کونسل کے ارکان سامراجی نظام کے طرز گفتگو اور طرز عمل میں خود کو گرفتار نہ کریں۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ یہ سفارش صرف مجلس خبرگان کے ارکان کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام عہدیداران، اسلامی نظام کے ذمہ داران، جملہ سیاسی، سماجی اور دینی مفکرین یہ خیال رکھیں کہ سامراجی نظام کی زبان اور طرز عمل کا رنگ ان کے اندر پیدا نہ ہونے پائے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ استکباری محاذ بہت بڑے پیمانے پر تشہیراتی مہم اور وسیع کوششوں کے ذریعے دیگر ملکوں کے حکام، پالیسی سازوں اور اہم فیصلے کرنے والوں پر اپنی خاص اصطلاحات اور طرز گفتگو مسلط کرنے کے در پے رہتا ہے۔
آپ نے فرمایا: "توسیع پسندانہ نظام کی زبان میں دہشت گردی اور انسانی حقوق جیسے مفاہیم کے اپنے خاص معانی ہوتے ہیں، اس زبان میں یمن کے عوام پر چھے مہینے سے بلا وقفہ جاری حملے اور غزہ کے بے گناہ عوام کا قتل عام دہشت گردی نہیں ہے اور ووٹ کا حق حاصل کرنے کے لئے قیام کرنے والے بحرین کے عوام کی سرکوبی انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توسیع پسندانہ نظام کی زبان میں لبنان اور فلسطین کی مزاحمتی فورسز کی قانونی دفاعی سرگرمیاں دہشت گردی سمجھی جاتی ہیں اور علاقے میں امریکا سے قربت رکھنے والے مستبد ممالک کے اقدامات انسانی حقوق کے منافی نہیں سمجھے جاتے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ سامراج کی زبان میں ایٹمی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ جس کا صیہونیوں نے تقریبا آشکارا طور پر اعتراف کیا ہے اور بعض یورپی ملکوں نے بھی اس کارروائی کی پشت پناہی میں اپنے رول کا اعتراف کیا ہے، دہشت گردی نہیں سمجھی جاتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اس طرح کی سوچ قائم کرنا اور پھر یہ توقع رکھنا کہ سب اسی دائرے میں گفتکو کریں اور بیان دیں، استکبار اور تسلط پسندانہ نظام کی نمایاں علامت ہے۔ آپ نے فرمایا: "اس کے بر خلاف اسلامی جمہوری نظام اسلامی فکری نظام کا حامل ہے جو برسوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دنیا میں اپنی خاص جاذبیت، جدت اور تازگی رکھتا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی فکری نظام کے اجزاء کی تشریح کرتے ہوئے ظلم و استکبار و استبداد کی نفی، قومی و اسلامی وقار اور سیاسی و اقتصادی و فکری خود مختاری کو اس فکری نظام کے اہم اجزاء سے تعبیر کیا اور خود مختاری کی اہمیت اور کسی بھی قوم کی خود اعتمادی اور پیشرفت میں اس کے کلیدی کردار کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ خود مختاری آزادی کا ایک حصہ ہے، بنابریں جو لوگ خود مختاری کی نفی کرتے ہیں وہ در حقیقت آزادی کے مخالف ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران کا 'خود مختاری، آزادی، اسلامی جمہوریہ' کا نعرہ ان تینوں مفاہیم کے آپسی منطقی رابطے کا حامل ہے۔ آپ نے فرمایا: "ہمہ جہتی خود مختاری، فکری و علمی آزادی، دونوں اسلامی فکری نظام میں اور اسلامی جمہوری نظام میں جاگزیں ہیں اور ایسا فکری نظام کسی بھی قوم کی بالیدگی اور خود اعتمادی کا مقدمہ ہوتا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی کے مطابق اسلامی طرز زندگی، جدت عملی، باہمی تعاون اور قومی اتحاد، اسلامی فکری نظام کے دیگر اہم اجزا ہیں۔ آپ نے فرمایا: "گزشتہ 36 سال کے دوران ملت ایران نے اسی فکری نظام کے دائرے میں آگے بڑھتے ہوئے بے شمار رکاوٹوں کے باوجود بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی نطام کا ہدف و مقصد وہ ایران ہے جو سائنس و صنعت کے اعتبار سے پیشرفتہ، پندرہ سے بیس کروڑ کی آبادی کا مالک، روحانیت و معنویت سے آراستہ، سامراجی خو سے دور مگر سامراجی اور مستبد طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ملک ہو۔ آپ نے فرمایا: "اس مقام تک اسلامی جمہوریہ ایران کی رسائی استکباری محاذ کے لئے ناقابل تحمل ہوگی، چنانچہ اسلامی نظام کے خلاف تمام سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا مقصد ایران کو اسی مستقبل تک پہنچنے سے روکنا ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ایسا اسلامی ملک استکبار و کفر کی بساط سمیٹ دئے جانے کی تمہید ثابت ہوگا۔ آپ نے فرمایا: "ملت ایران اور خاص طور پر نوجوانوں، علمائے دین اور یونیورسٹیوں کے دانشوروں کو چاہئے کہ اسلامی فکری نظام کے دائرے میں اپنی پیش قدمی جاری رکھیں اور حکام سمیت تمام افراد دشمن کی سازشوں کی طرف سے ہوشیار اور چوکنے رہیں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دشمن کی مسکراہٹ اور کسی خاص مسئلے میں اس کی کوتاہ مدت مدد کی بنا پر اس کے فریب میں نہیں آنا چاہئے، بلکہ ہمیشہ اس نکتے کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس کا اصلی منصوبہ کیا ہے؟
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ دشمن اور عالمی استکبار کوئی موہوم باتیں نہیں ہیں، یہ عین حقیقت ہے اور اس کا سب سے بڑا مصداق امریکی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی بڑی صیہونی کمپنیاں اور کارٹلز ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دیندار نوجوانوں کی صلاحتیوں، قابلیت اور توانائیوں کا حوالہ دیا اور اسی طرح ملک کے قدرتی ذخائر، ثروت اور صلاحیتوں، نیز عوام کے درمیان اسلامی ثقافت اور اہل بیت علیہم السلام کی ثقافت کی گہری جڑوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ تمام حکام اور بااثر شخصیات کو معاشرے میں جن کے بیان کا خاص اثر ہے، چاہئے کہ تابناک مستقبل کی تصویر پہلے سے بہتر انداز میں عوام کے سامنے پیش کریں اور مستقبل کے تعلق سے ان کے اندر امید و نشاط کا جذبہ پیدا کرکے ملک میں طمانیت و آسودگی کے ماحول کی زمین ہموار کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں بہت اہم نکات پر روشنی ڈالی اور اس پلان کے بعد کے مسائل نیز مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کے موضوع کا جائزہ لیا۔
ایٹمی اتفاق رائے کے متن کا پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلام کے اندر جائزہ لئے جانے کے مسئلے پر جاری بحث کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: "اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں اور اس کے تقاضوں کے بارے میں ماہرین قانون اور متعلقہ اہل نظر افراد رائے زنی کریں، تاہم کلی طور پر میرا یہ خیال ہے اور میں صدر مملکت سے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس میں مصلحت نہیں ہے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مسئلے کے جائزے سے پارلیمنٹ کو الگ رکھا جائے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے اس مسئلے کے جائزے کے عمل میں پارلیمنٹ کی شمولیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ جائزے کی روش یا اس بارے میں کہ اسے منظور یا مسترد کیا جائے، پارلیمنٹ کو کوئی سفارش نہیں کروں گا، قوم کے نمائندوں کو چاہئے کہ وہ خود فیصلہ کریں۔"
مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد کے مسائل کے بارے میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "میں نے ان مسائل کے بارے میں حکومت کے اندر اپنے برادران عزیز سے گفتگو کی اور اب مجلس خبرگان کے ارکان اور تمام عوام کے سامنے انھیں بیان کر رہا ہوں۔"
قائد انقلاب اسلامی نے ایران سے مذاکرات کرنے والے چھے ممالک اور ان کے درمیان امریکا کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "در حقیقت ہمارا اصلی فریق امریکا ہے اور امریکی حکام بہت غلط انداز میں بات کرتے ہیں، لہذا اس طرز گفتگو کا معاملہ صاف ہونا چاہئے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے ان بیانوں کا حوالہ دیا جن میں وہ پابندیوں کے ڈھانچے کو باقی رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "اگر یہ ڈھانچہ باقی ہے تو پھر ہم نے مذاکرات کیوں کئے؟ یہ چیز مذاکرات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی شرکت کی علت کے بالکل برخلاف ہے، کیونکہ مذاکرات کا ہدف پابندیوں کا خاتمہ تھا۔"
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر مذاکرات میں بعض مسائل میں ہم نے نرمی دکھائی ہے اور بعض مراعات دی ہیں تو یہ بنیادی طور پر اس لئے تھا کہ پابندیاں ہٹ جائیں، ورنہ مذاکرات میں شامل ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم اپنا کام جاری رکھتے اور اپنے پاس موجود سنٹری فیوج مشینوں کی 19 ہزار کی تعداد کو بہت کم مدت میں پچاس ساٹھ ہزار تک پہنچا سکتے تھے اور بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم کی افزودگی جاری رکھتے اور تحقیق و ریسرچ کا کام بھی زیادہ تیزی سے آگے لے جاتے!
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر پابندیاں نہیں اٹھائی جائیں گی تو پھر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، بنابریں اس معاملے کو واضح کر لیا جانا چاہئے۔ ملک کے حکام کو مخاطب کرکے آپ نے فرمایا:" یہ نہ کہئے کہ امریکی اس طرح کے بیان اپنے اندرونی حریفوں کو مطمئن کرنے کے لئے دے رہے ہیں، بیشک میں مانتا ہوں کہ امریکا کا اندرونی تنازعہ ایک حقیقت ہے، ان کے اندر باہمی اختلافات ہیں اور اس اختلاف کی وجہ بھی ہمیں معلوم ہے، لیکن رسمی طور پر اگر کوئی بیان دیا جائے تو اس کا جواب دینا ضروری ہے، کیونکہ جواب نہ دیا جائے تو فریق مقابل کی بات صحیح مان لی جائے گی۔"
قائد انقلاب اسلامی نے پابندیوں کو ملتوی کر دینے سے متعلق امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معطل کرنے کے بارے میں سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی، ہم نے ہمیشہ زور دیا کہ پابندیاں معطل نہیں ختم ہونی چاہئیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا: "البتہ ہماری رائے تو یہ تھی کہ پابندیاں فوری طور پر ختم ہوں، لیکن یہاں ہمارے دوستوں نے مسئلے کی ایک خاص شکل میں تشریح کی اور ہم نے بھی مخالفت نہیں، لیکن اب پابندیاں ہٹ جانی چاہئیں۔ اگر پابندیاں صرف ملتوی ہوتی ہیں تو ہم بھی معطل کرنے کی حد تک ہی اقدامات کریں گے اور زمینی سطح پر کوئی اساسی کارروائی انجام نہیں دیں گے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: "البتہ فریق مقابل کہتا ہے کہ پابندیوں کو اٹھانا امریکی حکومت کے اختیار میں نہیں ہے، تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جو پابندیاں امریکی حکومت اور یورپی حکومتوں کے ہاتھ میں ہیں، کم از کم وہ ہٹائی جائیں۔"
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں امریکی حکام کے غلط لہجے کو ایٹمی اتفاق رائے کے دائرے سے بالکل خارج بیان قرار دیا اور فرمایا کہ امریکا کی بر سر اقتدار انتظامیہ ایران کے بارے میں انیسویں صدی کے برطانوی حکام کی طرح بات کرتی ہے، گویا وہ دنیا اور تاریخ سے دو صدی پیچھے ہے، جبکہ دنیا بدل چکی ہے اور سپر طاقتیں اب اس زمانے کے اقدامات اور کاموں کی توانائی اور بساط نہیں رکھتیں، بلکہ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران اپنی شناختہ شدہ اور ناشناختہ توانائیوں سے آراستہ ہے جو وقت آنے پر نظر آئیں گی۔ ایران کسی اور پسماندہ ملک کی طرح نہیں ہے کہ جس لہجے میں چاہیں اس سے بات کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے ایک توسیع پسندانہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "امریکی حکام کہتے ہیں کہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور عہدیداران کچھ الگ ہٹ کے کریں!"
آپ نے فرمایا: "ان کی نظر میں الگ ہٹ کے کام سے مراد اسلامی جمہوریہ کے ماضی سے بالکل الگ کام کیا جائے، اسلامی اقدار کو عبور کر لیا جائے اور اسلامی احکامات کی پابندی ترک کر دی جائے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا، نہ حکومت، نہ پارلیمنٹ اور نہ حکام، ہرگز کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کچھ کرنا چاہے گا تو عوام اور اسلامی جمہوری نظام اس کے ایسے کسی کام کو قبول نہیں کریں گے۔"
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی توقعات کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امریکا کی ایک اسٹریٹیجی یہ ہے کہ مزاحمتی فورسز کو پوری طرح نابود کر دیا جائے، عراق اور شام پر اس کا مکمل تسلط ہو جائے اور اس کی توقع یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسی اسٹریٹیجی کے مطابق خود کو ڈھال لے، مگر ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکی حکام کے ایک اور قابل اعتراض بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "وہ کہتے ہیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان سے ایران کے اندر، ایران کے باہر اور علاقے میں امریکا کو بہت سے مواقع حاصل ہو گئے ہیں۔"
آپ نے مجریہ اور دیگر اداروں کے حکام کو مخاطب کرکے فرمایا: "حکومت اور دیگر اداروں میں موجود عہدیداران ہرگز کسی بھی صورت میں امریکا کو ملک کے اندر کسی موقع سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں اور ملک کے باہر بھی یہ کوشش کریں کہ یہ مواقع امریکیوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں، کیونکہ وہ اپنے ان مواقع کے جتنے قریب ہوں گے، قوموں کی رسوائی، پسماندگی اور مشکلات اتنی زیادہ ہوں گی۔"
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ میری تاکید ہے کہ خارجہ شعبے اور دیگر شعبوں کے حکام امریکیوں سے ایٹمی مسئلے کے سوا کسی چیز کے بارے میں بات نہ کریں۔ آپ نے فرمایا: "اس مخالفت کی وجہ امریکیوں کا رویہ ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران کے رخ اور موقف کے بالکل برخلاف ہے۔"
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مزاحمتی معیشت جیسے اہم ترین مسئلے کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ مزاحتمی معیشت کی پالیسیاں ایک ناقابل تقسیم مکمل مجموعے کی شکل میں ہیں اور اس کے نفاذ کے لئے بھرپوری عملی پروگرام کی ضرورت ہے، بنابریں ہم نے صدر محترم اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے نفاذ کے لئے ایک جامع اور قابل عمل پروگرام تیار کیا جائے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ کام انجام دیا جائے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزاحمتی معیشت کے نفاذ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اگر مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنا دیا جائے تو پھر اس کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی کہ جو پیسہ ایران کو مل رہا ہے وہ پانچ ارب ڈالر ہے یا سو ارب ڈالر ہے، البتہ دنیا کے ملکوں کے پاس ہماری جو رقم واجب الادا ہے اور اب تک ظالمانہ طور پر اسے روک کر رکھا گیا ہے، وہ ہمارے کام آنی چاہئے، لیکن مزاحمتی معیشت کا ان چیزوں پر انحصار نہیں ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مزاحمتی معیشت کے نفاذ کے لئے ایک فعال ورکنگ کمیٹی کی تشکیل پر زور دیا اور کہا کہ یہ کمیٹی حکومت میں تشکیل دی جائے جو ہر ادارے کے فرائض کا تعین کرکے اور کاموں اور اقدامات کے لئے نظام الاوقات معین کرکے وسیع پیمانے پر سرگرمیوں کا آغاز کرے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ملک کی مومن فورسز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کلی پیش قدمی کا عمل اعلی اسلامی اہداف و مقاصد کی جانب مرکوز ہے اور حقیقی مومن فورسز جو ملک کی واضح اکثریت کو تشکیل دیتی ہیں، اللہ تعالی کے وعدہ نصرت کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے مختلف اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں کام کرنے اور دشمن کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کی اپنی آمادگی قائم رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے ماہرین کی کونسل کے سربراہ آیت اللہ یزدی نے اپنی تقریر میں کہا کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت اور ایران کے عوام کی شجاعت کی وجہ سے اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ انھوں نے ماہرین کی کونسل کے اجلاس کے تعلق سے کچھ نکات بیان کئے۔
کونسل کے نائب سربراہ آیت اللہ شاہرودی نے ماہرین کی کونسل کے اٹھارہویں اجلاس کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ کونسل کے حالیہ اجلاس کا دستور العمل کونسل کے ارکان کی تعدد سے متعلق شق کی اصلاح کرنا تھا۔ انھوں نے اجلاس میں علاقے کے حالات کے جائزے، عالم اسلام میں تکفیری گروہوں کے فتنے اور متعلقہ عہدیداروں کو اجلاس میں مدعو کرکے ایٹمی مذاکرات کا جائزہ لئے جانے کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماہرین کی کونسل نے اس بات پر تاکید کی کہ ایٹمی معاہدے کا مطلب امریکا سے تعلقات کا معمول پر آ جانا نہیں ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬