رسا نیوز ایجنسی کی رھبر معظم انقلاب اسلامی کی خبر رساں سائٹ سے رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے قرآن کریم کے 33 ویں بین الاقوامی مقابلے کے شرکاء سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے خدا پر ایمان اور طاغوت سے کفر برتنے کو اقتدار کی اصلی اور حقیقی اساس قرار دیتے ہوئے اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا: امریکہ طاغوت اعظم اور شیطان اکبر ہے فرمایا کہ آج طاغوتی طاقتوں کے مکر و فریب کے مقابلے میں علماء، اہل فکر، اور معاشرے کے ایلیٹ طبقے کی اہم ترین ذمہ داری اور جہاد، روشن خیالی اور عوام کو آگاہ کرنا ہے اور امت مسلمہ کو بھی چاہئے کہ وہ ان طاقتوں کے جھوٹے وعدوں کے فریب میں نہ آئے اور ان کی دھمکیوں سے نہ مرعوب نہ ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان قرآنی مقابلوں کا اہتمام اور انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان مقابلوں کو امت مسلمہ کی وحدت کا محور قرار دیا اور فرمایا : ایسی صورتحال میں کہ جب استکبار مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور تنازعہ پیدا کرنے کی سیاست پر عمل پیرا ہے امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اس عظیم الہی نعمت سے تمسک کرتے ہوئے وحدت اور بھائی چارے کی راہ پر گامزن ہو۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان قرآنی محفلوں کی برکتوں میں سے ایک برکت، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص جوانوں کی قرْآن سے انسیت کو قرار دیا اور فرمایا : امت مسلمہ کو آج پہلے سے کہیں زیادہ قرآنی معارف، مفاہیم اور تعلیمات کی ضرورت ہے کیونکہ حقیقت میں مسلمانوں کی زندگی کی قرآن سے بہت زیادہ دور ہوچکی ہے۔
آپ نے طاغوتی طاقتوں کی جانب سے اسلام اور امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لئے وسیع پیمانے پر کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا : وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلمان قدرت و طاقت کے حامل ہوجائیں اور انکی آواز بلند اور رسا ہوجائے تو پھر وہ قوموں اور ملتوں پر ظلم نہیں کر پائیں گے اور ایک مسلمان ملک کے غصب کئے جانے یعنی فلسطین کا موضوع فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان سازشوں پر غلبہ حاصل کرنے کی کنجی قرآن سے تمسک اور قدرت و طاقت کے بنیادی اصولوں کے حصول کو قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا : حقیقی قدرت وطاقت یعنی ایمان و پائیداری اور طاغوت سے کفر اختیار کرنا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بعض اسلامی ممالک کی جانب سے خدا کے بجائے طاغوت سے تمسک کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا : خطے کے ممالک امریکی سیاست کو عملی جامہ پہنانے والے ہیں اور درحقیقت یہ امت مسلمہ سے خیانت کررہے ہیں اور امریکی اثر و رسوخ کے لئے زمینہ فراہم کر رہے ہیں۔
آپ نے ملت ایران کے ایمان اور پائیداری اور امریکہ کے بے جا تقاضوں کے مقابلے میں استقامت کو اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار کی اصل وجہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا: ملت ایران سے بڑی طاقتوں کے خوف کھانے اور انواع و اقسام کی سازشیں رچے جانے کی اصل وجہ اس ملت کی اسلامی بنیادوں پر قائم رہنا ہے اور دشمن، مقتدر اور شجاع اسلام سے خوف کھاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مواقف اور اسکا صادقانہ کردار، مسلمانوں کے درمیان ایران کے موثر ہونے کا بنیادی سبب ہے اور اسکے اقتدار کی دوسری وجہ اسلامی نظام ہے، فرمایا: ابھی تک نہ طاغوتی طاقتوں کے وعدے ایران کو دھوکہ دے پائے ہیں نہ ہی انکی دھمکیاں ملت ایران کے ڈر و خوف کا سبب بنی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بڑی طاقتوں کی جانب سے کئے گئے وعدوں کا فریب نہ کھانے اور انکی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہونے کوعالم اسلام کی ایک بنیادی ضرورت قرار دیا اور فرمایا : آج امت مسلمہ خاص طور پر علماء، اہل فکر اور ملک کے تعلیم یافتہ طبقے کی ایک اہم ذمہ داری عالم اسلام کے حقائق کے سلسلے میں روشن فکری اور عوام کو حقیقت بیان کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے۔
آپ نے خطے میں تکفیری دہشتگرد گروہوں کی موجودگی اور دشمن کی نیابت میں مسلمانوں کے درمیان جنگ اور اختلافات شروع کرنے کو گمراہی اور روشن فکری کا فقدان قرار دیتے ہوئے فرمایا : ان قرآنی محفلوں سے روشن فکری کے لئے استفادہ کیا جانا چاہئے اور جو لوگ اس محفل میں دوسرے ممالک سے تشریف لائے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنی اپنی ملتوں کی رہنائی کریں اور انہیں ان مسائل سے آگاہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ خداوند متعال کی مدد و نصرت مسلمان قوموں کی جدوجہد سے مشروط ہے اور یہ جدوجہد عوام میں بیداری اور آگاہی پیدا کرنے میں مضمر ہے، فرمایا : اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کفر کا محاذ بالآخر اسلامی مجاہدین کے محاذ کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے ولی فقیہہ کے نمائندے اور ادارہ اوقاف اور خیراتی امور کے سربراہ حجت الاسلام محمدی نے "ایک کتاب ایک امت" کو تینتیسویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کا نعرہ قرار دیا اور کہا : اس سال حفظ اور قرائت قرآن کے ان مقابلوں میں ستر ممالک سے آئے ہوئے ایک سو تیس افراد نے شرکت کی۔
انہوں نے شہدائے منیٰ خاص طور پر منیٰ میں شہید ہونے والے قرآن سے منسلک افراد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا : مختلف ممالک سے پہلی مرتبہ روشن دل{ نابینا} قاریان قرآن کی شرکت، شہدائے قرآنی اور شہدائے مدافعین حرم کے اہل خانہ کی قدردانی، قرآنی مقالات اور تحقیقات کے لئے دعوت، اور قرآنی نمائشوں اور محفلوں کا انعقاد 33ویں بین الاقوامی قرآنی مقابلوں کی اہم سرگرمیاں تھیں۔