رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام گیارہ ذی قعدہ سنہ ایک سو اڑتالیس ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں خاندان رسالت کے آٹھویں ستارہ امامت کے عنوان اس دنیا کو اپنے وجود سے پر نور کیا ۔
آپ کے فضائل میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے زمانے میں سب سے زیادہ علم کے حامل تھے۔ بنی عباس کا خلیفہ مامون الرشید ہمیشہ مختلف سوالات کے ذریعے آپ کو آزماتا رہتا ہے۔ آپ ہر سوال کا جواب دیتے اور آپ کے تمام جوابات کا سرچشمہ قرآن کریم ہوتا تھا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے مسلمان اور اللہ تعالی کی خوشنودی کے خواہاں لوگ، حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت کے موقع پر آپ کے روضہ اقدس سمیت مختلف مقدس مقامات پر جا کر جشن مناتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے چھوٹے بڑے شہروں میں آج حضرت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے جشن منایا جا رہا ہے۔ سڑکوں اور دوکانوں کو سجایا گیا ہے اور لوگ شربت اور مٹھائی تقسیم کر رہے ہیں۔ آج علمائے کرام اور ذاکرین عظام دن بھر حضرت امام رضا علیہ السلام کے فضائل بیان کریں گے۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوعالم ، رسول اکرم(ص) اورآئمہ طاہرین (ع) نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے۔
علماء ومورخین کا بیان ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام بتاریخ ۱۱/ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے ہیں ۔ آپ کی ولادت کے متعلق علامہ مجلسی اورعلامہ محمد پارسا تحریرفرماتے ہیں کہ جناب ام البنین کاکہنا ہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے گل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی،میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل کی آوازیں سناکرتی تھی ۔
جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے تو آپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیک دئے اوراپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلند کردیا آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ خدا سے کچھ باتیں کر رہے ہیں ، اسی اثناء میں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اورمجھ سے ارشاد فرمایا کہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا ۔
آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعدآپ نے ارشادفرمایا کہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعدحجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے ابن بابویہ فرماتے ہیں کہ آپ دیگرآئمہ علیہم السلام کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے۔
آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اور تعیین رسول ص کے موافق آپ کو اسم علی سے موسوم فرمایا،آپ آل محمد (ص) کے تیسرے علی ہیں ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اور مشہورترین لقب رضا تھا۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوعالم ، رسول اکرم اورآئمہ طاہرین، نیز تمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ بزنطی نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد ماجد کو لقب رضا سے مامون رشید نے ملقب کیا تھا آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہ لقب خدا و رسول (ص) کی خوشنودی کا جلوہ بردار ہے اور خاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے ۔