‫‫کیٹیگری‬ :
14 January 2017 - 21:29
News ID: 425686
فونت
آیت الله جوادی آملی:
مفسر عصر حضرت ‌آیت الله جوادی آملی نے کہا: بعض کا کہنا ہے کہ ہم نے محنت کی ، با استعداد تھے تو دینی یا عام علوم کے عالم بن گئے ، ہم میں سے بعض کے سخن اسلامی ہیں مگر فکریں قارونی ہیں ، مگر یاد رہے کہ جب تک یہ خنّاسیت انسانوں کے وجود سے باہر نہ ہوجائے یعنی ہم جب تک « فقيرِ مِن الربوبيّة» نہیں ہوئے «فقيرِ الي الله» نہیں ہوسکتے ۔
آیت الله جوادی ‌آملی

 

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت ‌آیت الله جوادی آملی نے اپنی اخلاقی نشست میں جو مسجد آعظم قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ کی شرکت کی میں منعقد ہوئی کہا: ہم اخلاقی نشستوں میں اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ قران کریم اس سے پہلے کہ ہمیں کسی مثبت عمل کا حکم دے کہ ہم کن صفات کو اپنائیں اور کن صفات سے دوری اختیار کریں ، یعنی قران کریم ہمیں اس بات کی جانب متوجہ کراتا ہے کہ تمھارا وجود کن باتوں سے خالی ہے اور ہم ان فضائل کو حاصل کرنے کی توانائی رکھتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا: آیت کے اس ٹکڑے ﴿يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَي اللَّهِ﴾ کی عقلی کتابوں میں مختصر تفسیر کی گئی ہے مگر اخلاقیات کی کتابوں میں جن لطافتوں کی جانب تذکرہ ہے عقلی کتابوں میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ، تمام اخلاقی گفتگو «فقيرِ من الله» سے متعلق ہے کہ حكمت و كلام اسلامی کی گفتگووں میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ، «فقيرِ من الله» کے مفھوم کو مرسل آعظم (عليه و علي آله آلاف التحيّة والثناء) سے منقول دعا سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے فرمایا : «أعوذ بك منك» خدایا میں تجھ سے تیری جانب ہی پناہ مانگتا ہوں ، اسے توحید محض کہتے ہیں کیوں کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا جس میں خداوند متعال کی مرضی شامل نہ ہوں اور اس سانحے سے نجات کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ خداوند متعال اس سے نجات دلائے ، لہذا جو حادثہ بھی رونما ہوتا ہے اس میں خدا کی مرضی ہوتی ہے اور ہمیں اس سے نجات کے لئے اسی کی ذات سے پناہ حاصل کرنی چاہئے تاکہ مشکلات سے روبرو نہ ہوں ، ہم اس سے پناہ مانگتے ہیں کہ اگر کوئی مشکل پیش بھی ائے تو وہ خود ہی اسے حل کردے ۔

حوزه علمیه قم میں تفسیر قران کریم کے استاد نے بیان کیا: ان باتوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی رونما ہوتا ہے وہ سب کا سب خدا کی مرضی اور ذات کے تحت ہے ، اگر تلخیاں ہم تک پہونچتی ہیں تو وہ بھی اس کی مرضی کے شامل حال ہے اور اگر یہ تلخیاں ہم سے دور ہونا چاہتی ہیں تو وہ بھی اسی کے اشارہ پر ہیں ، پس ہم اسی سے پناہ مانگتے ہیں ۔

حضرت آیت الله جوادی آملی نے تاکید کی: ہم تمام انسانوں کے وجود میں ایک قسم کی ربوبیت موجود ہے کہ جسے خود خواھی کا نام دیا جاتا ہے ، بعض لوگ زبان دارزی کرتے ہیں اور فرعون کے مانند یہ کہتے ہیں ﴿أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلي﴾ اور بعض زبان‌ كوتاهی کرتے ہوئے قارونی گفتگو کرتے ہیں ، بعض کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے محنت کی تو ہمیں یہ مال و دولت ملا ، با استعداد تھے تو دینی یا عام علوم کے عالم بن گئے ،  دونوں ہی ربوبیت کے دعوے دار ہیں ، ہم نے محنت کی تو ہمیں یہ مال و دولت ملا ، با استعداد تھے تو دینی یا عام علوم کے عالم بن گئے جیسے کلمات میں « فقرِ مِن الربوبيّة» نہیں ہے ۔

انہوں نے مزید کہا: قارون اور فرعون کی باتوں میں یہی فرق ہے کہ فرعون کھلے لفظوں میں کہتا تھا کہ ﴿أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلي﴾ مگر قارون انہیں باتوں کو دبے لفظوں میں کہتا تھا اور وہ اس طرح کہ ﴿إِنَّما أُوتيتُهُ عَلي‏ عِلْمٍ عِنْدي﴾ ہمیں جو کچھ بھی ملا میری اپنی محنت کا نتیجہ ہے ، محنت کی ، با استعداد تھے تو دینی یا عام علوم کے عالم بن گئے ، ہم میں سے بعض کے سخن اسلامی ہیں مگر فکریں قارونی ہیں ، مگر یاد رہے کہ جب تک یہ خنّاسیت انسانوں کے وجود سے باہر نہ ہوجائے یعنی ہم جب تک « فقيرِ مِن الربوبيّة» نہیں ہوئے «فقيرِ الي الله» نہیں ہوسکتے ۔

 

قران کریم کے مفسر نے مزید کہا: آیت کریمہ ﴿وَ ما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلاَّ وَ هُمْ مُشْرِكُونَ﴾ جس مفھوم کی جانب اشارہ کرتی ہے وہ یہی نکتہ ہے ، اس آیت میں کہا گیا ہے اکثر مومنین خود خواھی اور باطنی ربوبیت سے دوچار ہیں کہ جو ان کے غصے کے وقت ، ان کی فخر فروشی کے وقت ، اظھار علم کے وقت اور اظھار مھارت کے وقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، یہ باطنی ربوبیت کی ایک جھلک ہے ، جب امام معصوم (سلام الله عليه) سے معلوم کیا گیا کہ کس طرح اکثر مومنین مشرک ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا کہ اگر فلاں شخص نہ ہوتا ، فلاں وسیلہ نہ ہوتا یا ان کا یہ کہنا کہ اول خدا اور دوسرے فلاں شخص ، یہ باتیں ایک طرح کی شرک ہے اور یہ اعتقاد انسان کو مشرک بنا دیتا ہے ۔

حضرت آیت الله  جوادی آملی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ انسان میں اس بات کی توانائی موجود ہے کہ وہ صفات الھی کا مظھر ہو کہا: انسان کا باطن ھر چیز سے خالی ہے مگر اس میں یہ توانائی موجود ہے کہ وہ موحد ہو اور ذات الھی کا مظھر ہو ، جوشن كبير کے نورانی اسماء الھی کہ یقینا شب جمعہ میں آپ سب کی تلاوت کرتے ہوں گے ، یہ ایک ھزار یا ایک ھزار و ایک اسم کہ ان میں سے بعض عظیم اور بعض اسم اعظم ہیں وہ انسانوں کو مظھر ذات الھی بنانے میں مددگار ہیں ۔

 انہوں نے بیان کیا: سانپ ، بچھو اور کتے جیسے نجس العین حیوان کو پانی پلانا اور ان کی رفع تشنگی ثواب کا حامل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حیوانات خدا کی مخلوق ہیں اور انسان خدا کی صفت «الرحمن» کا مظھر ہے ، روایتوں میں ہے کہ پیاسے کو پانی پلانا ثواب رکھتا ہے ، حتی جانداروں سے بڑھ کر یہ کہ انسان درختوں کو پانی ڈالے تو وہ بھی قربت الی اللہ کا سبب اور عبادت شمار کیا جاتا ہے ۔

حوزه علمیه قم میں تفسیر قران کریم کے استاد نے یاد دہانی کی: کس انسان کو یہ فکر ہے کہ بے جان اور جاندار حیوانوں اور انسانوں کو اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے زیر سایہ قرار دے مگر وہ جو صفت رحمت الھی کا مظھر بننا چاہئے ۔

انہوں نے مزید کہا: دینی تعلیمات میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ دینی احکامات و وظائف کو ھمیشہ اور مرتبا انجام دیں ، آیت ﴿يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَ صابِرُوا وَ رابِطُوا﴾ کے لحاظ سے مرابطہ نفس ایک فقھی حکم ہے ، جیسے مسجد خدا کا گھر ہے کہ انسان کو جب موقع ملے مسجد جائے اور وہاں نماز ادا کرے ۔

حضرت آیت الله جوادی آملی نے حالیہ دنوں انتقال کرنے والے علمائے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: ان دنوں حضرت آيت الله موسوی اردبيلی، حضرت آيت الله واعظ ‌زاده خراسانی اور حضرت آيت الله هاشمی رفسنجانی کا انتقال کہ جنھوں نے اپنی پوری عمر مرابطہ نفس میں گزار دی اور دین و اسلام و نظام اسلامی اور رھبر معظم انقلاب اسلامی کی حمایت میں بسر کی ان کا اجر خداوند متعال کے پاس ہے نیز یہ ملت جنھوں نے اس سانحہ پر سوگ و ماتم برپا کیا لائق احترام ہیں ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۱۲۸۳

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬