‫‫کیٹیگری‬ :
18 June 2017 - 18:40
News ID: 428601
فونت
آیت الله سبحانی نے بیان کیا ؛
حضرت آیت الله سبحانی نے پیغمبر (ص) و امام علی (ع) کی فضیلت اور علم کے سلسلہ میں اصبغ بن نباتہ سے ایک روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اس روایت میں پیغمبر اکرم (ص) اور امام علی (ع) کو اسلامی امت کے باپ و سرور میں شمار کیا گیا ہے ۔
آیت الله سبحانی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے رمضان کے مبارک مہینہ کی مناسبت سے منعقدہ جلسہ میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت کے ایام کی مناسبت سے بیان کیا : امیر المومنین کے صاحب علم و معرفت اصحاب میں سے ایک اصبغ بن نباتہ ہیں کہ ان کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) و امام علی (ع) کی علم اور فضیلت امام علی علیہ السلام کے زندگی کی آخری لمحہ میں نقل کیا گیا ہے ۔

اصبغ کہتے ہیں کہ امیرالمومنین (ع) کو ضربت لگی کہ جس کی وجہ سے ان کی شہادت پیش آئی تو جب وہ زخمی تھے تو لوگ دارالامارہ میں جمع ہوئے اور ابن ملجم کو مارنے کے لئے اسرار کر رہے تھے تو امام حسن علیہ السلام گھر سے باہر آئے اور فرمایا : اے لوگوں مرے والد نے ہم سے وصیت کی ہے کہ ان کے قاتل کا فیصلہ ہماری موت تک متوقف رکھو ، اگر میرے والد اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے تو قاتل کا فیصلہ روشن ہے اور اگر وہ زندہ رہے تو اس کا فیصلہ خود ان کے اختیار میں ہے اس لئے آپ لوگ واپس چلے جائیں ۔

اصبغ کہتے ہیں کہ ان کے اس بیان کے بعد سب لوگ واپس چلے گئے لیکن میں واپس نہیں گیا ؛ امام حسن (ع) دوبارہ باہر تشریف لائے تو مجھے موجود پایا تو سوال کیا اے اصبغ کیا تم نے امیرالمومنین کے سلسلہ میں ہمارا پیغام کو نہیں سنا ؟ میں نے عرض کیا جی میں نے سنا لیکن چاہتا ہوں ان کی کیفیت دیکھ سکوں اور ان کو دیکھ کر ان سے ایک حدیث سنوں آپ ہمارے لئے ان سے اجازت حاصل کیجئے ۔

امام اندر گئے اور کچھ ہی دیر میں واپس آئے اور مجھ سے فرمایا : اندر چلیں میں اندر گیا دیکھا امرالمومنین کے سر پر ایک زرد رومال بندھا ہے کہ ان کے چہری کی زردی اس رومال سے بھی زیادہ روشن تھی اور درد کی شدت اور زہر کی کثرت کی وجہ سے اپنے پاوں کو بار بار اٹھا رہے تھے اور زمین پر رکھ رہے تھے اس وقت ہم سے فرمایا : اے اصبغ کیا میرا پیغام حسن سے نہیں سنا ؟ میں نے کہا ؛ جی امیر المومنین سنا ہے لیکن آپ کو اس حالت میں دیکھنا چاہ رہا تھا اور آپ سے ایک حدیث سننا چاہ رہا تھا ۔

امام علی (ع) نے فرمایا : بیٹھ جاو اب امید نہیں ہے کہ آج کے بعد سے مجھ سے کوئی حدیث سن پاوگے ؛ جان لو اے اصبغ کہ میں رسول اکرم (ص) کی عیادت کو گیا تھا ویسے ہی کہ جیسے تم ابھی میرے پاس آئے ہو رسول اللہ (ص) نے فرمایا : اے ابالحسن ، جاو لوگوں کو جمع کرو اور منبر پر جاو اور میری جگہ سے ایک نشست نیچے کھڑے ہو اور لوگوں سے کہو : « اے لوگوں خبردار جو شخص بھی اپنے باپ اور ماں کو نا راض کرے گا خدا کی لعنت اس پر ہوگی ، ہوش میں ہو جاو جو بھی اپنے مالک سے دوری اختیار کرے گا اس پر خدا کی لعنت ہو ، خبردار جو بھی محنت کی اجرت نہیں دیگا اس پر خدا کی لعنت ہو » ۔

اے صبغ میں نے اپنے حبیب رسول خدا کے حکم پر عمل کیا ، مسجد کے آخر سے ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا : ای اباالحسن تین جملہ آپ نے بیان کیا اس کی وضاحت بیان کریں ؛ میں نے اس شخص کا جواب نہیں دیا اور رسول خدا کے پاس گئے اور اس شخص کی بات ان سے کہی ۔

اصبغ نے کہا : یہاں پر امیر المومنین نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : اپنے ہاتھوں کو پھیلاو تو میں نے اہنے ہاتھوں کو پھیلایا تو حضرت نے میری ایک انگلی کو پکڑا اس کے بعد کہا کہ پیغمبر نے فرمایا : اے اباالحسن میں اور تم اس امت کے باپ ہیں ، خدا کی لعنت ہو اس شخص پر کہ جو اپنے باپ و ماں کو ناراض کرے ؛ ہاں میں اور تم اس امت کے سرور ہیں خدا کی لعنت ہو اس پر جو ہم سے دوری اختیار کرے ؛ اے علی میں اور تم اس امت کے اجیر ہیں جو بھی ہماری اجرت میں کمی کرے گا یا نہیں دیگا خدا کی لعنت ہو اس پر ، اس کے بعد انہوں نے آمین کہا اور میں نے بھی آمین کہا ۔

اصبغ کہتے ہیں : اس کے بعد امام بے ہوش ہو گئے اس کے بعد پھر ہوش میں آئے تو فرمایا ؛ اے اصبغ ابھی تک پیٹھے ہو ؟ کہا : جی میرے مولا اور اس کے بعد انہوں نے میرے لئے ایک دوسری حدیث بیان کی اور اس کے کچھ دیر کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اپنی گفت و گو کے آخر میں تاکید کی کہ یہ روایت اور اس طرح کی دوسری روایت سے مولا متقیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی علم و فضیلت کی یاد دہانی ہوتی ہے اور امام ہمارے لئے عظیم قابل فخر ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۹۲۷/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬