رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب الله لبنان کے نائب جنرل سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین شیخ نعیم قاسم نے ڈینٹسٹ سیمینار میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکا، مغربی ممالک اور سابق سوویت یونین نے علاقے میں دھشت گردی کی بنیادیں رکھیں اور ان کی حمایت کی کہا: ان ممالک نے عدالت و توازن و بیلنس پالیسی اپنانے نیز ملتوں کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے علاقے پر قبضہ جمانے کے لئے ملتوں کا قتل عام ، فتنہ پروری اور نابودی کی سیاست اپنائی جو اپنے دور کی بدترین سیاست تھی ۔
انہوں نے حکومتی اور تنظیمی دھشتگردی کی قسموں کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حکومتی دھشت گردی امریکا، انگلینڈ ، فرانس اور اسرائیل سے جلوہ گر ہے ، اور تنظیمی دھشت گردی کا مظھر تکفیری اور تمام جاسوسی اڈوں ہیں کہ جو منافقین خلق جیسے گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں اور قتل و غارت وغنڈہ گردی کی سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں ۔
لبنان کے اس شیعہ عالم دین نے کہا: دنیا کے بڑے ممالک نے دھشت گردانہ سرگرمیوں کو عروج دینے کی غرض سے وھابی ثقافت عام کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور اس سلسلے میں انہیں تمام امکانات فراہم کئے جارہے ہیں ، یہ مسئلہ افغانستان سے شروع ہوا ۔
ایران کا محاصرہ دھشتگردانہ اور امریکن مقاصد کا حصہ ہے
حجت الاسلام و المسلمین شیخ نعیم قاسم نے تکفیری ، امریکی اور صھیونی دھشت گردوں کے مقاصد کی جانب اشارہ کیا اور کہا: فلسطینی مسائل کو کبھی براہ راست اور کبھی اعراب اور کبھی علاقے کے مسائل کے ذریعہ اور کبھی ایران پر جنگ تھوپ کر اور کبھ اس کا محاصرہ کر کے نقصان پہونچایا گیا نیز حقیقی اسلام کو پھیلنے سے روکنا بھی اسی سیاست کا حصہ ہے ۔
انہوں نے لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ کو غاصب صھیونیت کی خطرناک ترین اور بزرگ جنگ بتاتے ہوئے کہا: استقامت اسلامی نے علاقے کے سلسلے میں دشمن کی خطرناک چالوں کو ناکامی سے روبرو کردیا اور صھیونیوں کو کھلی نیز بڑی شکست دی ، دشمن چونکہ اس ہار سے بہت زیادہ سہما ہوا تھا اس نے ایک نئی چال چلی اور سن 2011 عیسوی میں شام میں جنگ کا آغاز کیا اور اسے «نئے مشرق وسطی» کا نام دیا ۔
لبنان کے اس شیعہ عالم دین نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ حزب الله کو روز اول ہی سے اس سازش کی خبر مل گئی تھی کہا: ہم بروقت اور برموقع شام میں حاضر ہوئے ، مگر ہمیں ھرگز یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس تمام مشکلات کی اساس اور بنیاد امریکا ہے جس نے غاصب صھیونیت کے منافع کی حفاظت میں اسے انجام دیا ، امریکا نے تکفیری دھشت گردوں کی بنیاد ڈالی ، ان کی حمایت کی اور فراوان امکانات ان کے اختیار میں قرار دیئے ۔
امریکا کا داعش پر حملہ موصل اور رقہ تک محدود رہے گا
انہوں نے تاکید کی: امریکا اپنے گھناونے نقشے کو جامہ عمل پہنانے میں داعش کی ناکامی کے بعد موصل اور رقہ میں اب خود اس سے مقابلے میں اتر آیا ہے مگر دیگر مناطق میں اب بھی دھشت گردوں کی حمایت میں مصروف ہے ، اس نے جبهۃ النصره کو اپنے خاص اھداف کے لئے ذخیرہ کر رکھا ہے ۔
حجت الاسلام و المسلمین شیخ نعیم قاسم نے عالمی سامراجیت کو خطاب کرتے ہوئے کہا: میں عالمی سامراجیت سے کہتا ہوں کہ اس نے بارہا و بارہا استقامت کو آزمایا ہے اور اس سے ٹکرانے کی کوشش کی ہے مگر اسے اپنی مراد نہ ملی ، نیز اس کے بعد بھی وہ ہم پر پیروز نہیں ہوسکتا کیوں کہ ہم پوری جرات و بہادری کے ساتھ ہر قسم کی جنگ کے میدان میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہیں ، مگر بہر حال ہم دفاع کے میدان میں ہیں ہرگز حملے کا آغاز نہیں کریں گے نیز ملک کے استقلال کے طالب اور اپنی سرزمین کی آزادی کے خواہاں ہیں ۔
حزب الله لبنان کے نائب جنرل سکریٹری نے غاصب صھیونیوں اور تکفیریوں کو ایک ہی سکہ کا دو رخ جانا اور کہا: ہم جب تکفیریوں سے لڑتے ہیں تو درحقیقت اسرائیل سے برسرپیکار ہوتے ہیں اور اپنی سرزمین کو دھشت گردوں کے وجود ، دشمن صھیونیت کے ناپاک وجود سے خالی کرانے کے برابر جانتے ہیں ۔
انہوں نے بعض ماھرین کی پیش گوئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ لبنان بھی شامی بحران سے روبرو ہوگا کہا: لبنان ، حزب اللہ کے وجود کی برکتوں سے ھرگز اس بحران سے دوچار نہیں ہوا ، لبنان اپنی فوج ، ملت اور استقامت کے اتحاد کی بنیاد پر تکفیریوں کے مقابل سیسہ پلائی دیوار ہے اور اہل وطن کی خدمت میں مصروف ہے ، ہم ھرگز بیگانوں کے مصالح کی فکر میں نہیں تھے اور نہ مستقبل میں ہوں گے اور کوئی بھی ہماری گردن میں اغیار کی غلامی کا طمغہ نہیں ڈال سکتا ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۸۴۱