‫‫کیٹیگری‬ :
16 July 2017 - 15:50
News ID: 429031
فونت
آیت الله جوادی آملی:
حضرت آ‌یت الله جوادی آملی نے کہا : ایک وقت کوئی شخص علم حاصل کرتا ہے اور ایسی چیز پڑھتا ہے کہ وہ اس کے دنیوی وسائل میں سے ہوتا ہے اور وہ اس کے لئے غرور ہو اور القاب کے لئے ہو اس کی وجہ سے اس کی شہرت ہو اس کا نام لیا جاتا ہو ، اس کا نام القاب کے ساتھ بلایا جاتا ہو ، اس علم کی وجہ سے اس کا نام پہلے بلایا جاتا ہو اور اسی طرح کا کھیل ، اس شخص نے ایک ایسا علم حاصل کیا ہے کہ خود اس کے علم سے اس کی مذمت ہو رہی ہے ۔
آیت الله جوادی آملی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد و مشہور تفسیر کے استاد کی اس سال گرمی میں دماوند شہر کے احمد آباد حسینیہ میں ہفتگی درس اخلاق منعقد ہوئی ۔

حضرت آیت الله جوادی آملی نے اس جلسہ میں قرآن کریم کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تجارت و کار وبار کی قسموں کو بیان کیا ہے اور یہ کہ انسان کو چاہیئے کہ ہمیشہ حرام کار و بار اور بری عادت سے دوری اختیار کرے اظہار کیا : قرآن کریم میں کئی طرح کی تجارت و کار و بار بیان ہوا ہے کہ ایک کار و بار کا سلسلہ کریڈیٹ پر ہے کہ وہ تجارت و کار و بار تاجر کے اختیار میں ہے ، یک حقیقی تجارت کا سلسلہ ہے کہ اس میں تاجر پر تجارت حاکم ہے ۔

انہوں نے وضاحت کی : وہ کریڈیٹ والا تجارت و در آمد جس میں تاجر در آمد شی پر حاکم ہے وہ در آمد ہے کہ انسان مال کو یا عین کو یا منفعت کو یا فائدہ کو حاصل کرتا ہے ۔ خداوند عالم فرماتا ہے ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ﴾ یعنی مرد نے جو چیز کمایا اس کا ہے اور عورت نے جو کچھ کمایا وہ اس کا مال ہے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : مسئلہ کا ایک سلسلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو حاصل کرتا ہے تو خود اس محصول کے اختیار میں چلا جاتا ہے ؛ جیسا کہ سورہ مبارک مومنون اور اس کے مثل آیات میں فرمایا ہے ﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُم مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ﴾ معاذ اللہ اگر کوئی شخص نے غلط راستہ اختیار کر لی اور گناہ میں مبتلی ہو گیا ، ایک برے اخلاق کی عادت کر لی ، جھوٹ بولنا ، خیانت کرنا ، حرام کام انجام دینا ، معاذ اللہ ڈرگس و بری چیزوں کی لت لگ گئی ہو ، اس نے اس برائی کو حاصل کی ہے ، پہلے تو یہ صفات اس میں نہیں پائی جاتی تھی یہ اس نے بعد میں حاصل کی ہے ، اس خُلق کو حاصل کی ہے ، جب وہ دنیا میں آیا تھا یعنی پیدا ہوا تھا تو یہ خُلق اس میں نہیں تھے یہ صفات اس میں نہیں پائے جاتے تھے جو اس نے صفات اس وقت حاصل کئے ہیں ، خود حاصل کرنے والا یہ شخص محصول کے اختیار میں ہے  اس حد تک کہ یہ صفت اس شخص کو جہاں بھی چاہے لے جا سکتا ہے کیوںکہ اس نے اس کی عادت کر لی ہے ۔ خدا نہ کرے اگر فعل حرام کی عادت کی ہے گناہ کرنے کی عادت کر لی ہے تو ہماری آنکھیں ، ہماری کانیں ، ہماری زبانیں محصول کے ختیار میں ہے ۔ حاصل کرنے والا اختیار رکھتا ہے مال حاصل کرنے والے کے اختیار میں ہے لیکن اگر خدا نہ کرے برے صفات کو حاصل کی ہے تو یہ حاصل کرنے والا محصول کے اختیار میں چلا جاتا ہے کہ سورہ مومنوں میں فرمایا ہے ﴿لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُم مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ﴾ ۔

قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے گناہ کا کردار انسان کے ذریعہ نیک کام انجام دینے میں رکاوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : كتاب شريف توحيد میں مرحوم ابن‌ بابويه قمي (رضوان الله عليہ) میں وجود مبارک حضرت امير(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے حضرت سے سوال کیا کیوں ہم نماز شب نہیں پڑھ سکتے ہیں ؟ اگر بہار کی راتیں چھوٹی ہیں یہ تو ٹھک ہے لیکن سردی کی راتیں تو لمبی ہوتی ہے ، انسان سو کر تھک جاتا ہے پھر بھی کیوں نماز شب نہیں پڑھ پاتے ہے تو امام نے فرمایا کہ روزانہ کی گناہوں نے ہاتھ و پیر کو بند کر دی ہے ۔

انہوں نے اپنی تقریر کے اس حصے کے نتیجہ میں بیان کیا : اس وجہ ہم لوگ دو قسم کی چیز حاصل کرتے ہیں : ایک حاصل وہ جس پر حاصل کرنے والا مسلط ہے اور ایک حاصل وہ کہ محصول ہم پر مسلط ہے اور خدا نہ کرے اگر کوئی حرام حاصل کر رکھتا ہو اور بری صفت کی عادت کر لی ہو تو وہ تونہ کرے اس کے لئے توبہ کا راستہ کھلا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۸۳۵/

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬