‫‫کیٹیگری‬ :
18 August 2017 - 21:36
News ID: 429543
فونت
حجت الاسلام والمسلمین انصاریان :
قرآنی محقق و مفسر نے بیان کیا : خداوند عالم کی نعمتوں کا شکر خدا کی عبادت سے ہے ، نہ صرف یہ کہ زبان سے الحمد للہ کہہ دیا ؛ الحمد للہ حق کا شکر زبان سے ادا کرنا ہے اور قلب کا شکر ایمان ہے ، عبادات اعضا و جوارح کا شکر ہے اور اگر اس کے علاوہ شکر انجام دیا جا رہا ہے تو وہ شکر نہیں ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین انصاریان

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد و قرآن کریم کے مفسر حجت الاسلام والمسلمین شیخ حسین انصاریان نے شاہچراغ شیراز میں اپنی تقریر میں بیان کیا : خداوند عالم نے انسان کو جس وجہ سے عقل عطا کی ہے ، اختیار و آزادی جو اس کو عنایت کی ہے اس کی وجہ سے اس کے ذمہ جو حکیمانہ ذمہ داری و احکامات دئے ہیں وہ کرم و محبت و لطف و احسان کی وجہ سے عنایت کی ہے ؛ اس طرح کے لطف و کرم نہ فرشتوں کے ساتھ  ہوا ہے اور نہ ہی جنوں کے ساتھ اور نہ ان گروہ کے ساتھ جس کو شاید ہم لوگ نہیں پہچان رہے ہیں اور ہم لوگوں کو ان کا تعارف نہیں کرایا گیا ہے ۔

حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : امام صادق علیہ السلام عقل اور عقل کے فائدہ کی اہمیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : عقل ہے کہ جو تم لوگوں کی ہدایت کرتا ہے کہ تم خداوند عالم کی تمام الہی نعمتوں پر شکر ادا کرو اس لئے خداوند عالم کی نعمت کا شکر اس کی عبادت کرنے میں منحصر ہے ، نہ صرف یہ کہ زبان سے الحمد للہ کہہ دیا ؛ الحمد للہ حق کا شکر زبان سے ادا کرنا ہے اور قلب کا شکر ایمان ہے ، عبادات اعضا و جوارح کا شکر ہے اور اگر اس کے علاوہ شکر انجام دیا جا رہا ہے تو وہ شکر نہیں ہے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : بزرگان دین ، اہل دل اور علمی و قرآنی عظیم شخصیت جیسے خواجه ‌نصیرالدین طوسی(ره) نے ایات و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : شکر ایک ترکیبی واقعیت ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ اس قدر الہی فراوان نعمت کے سامنے ہماری زبان سے صرف ایک عربی عبارت مثل الحمد للہ جاری ہو اور بس ، ایسا تو ھندوستان کی طوطی کو بھی سیکھایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پنجرے میں ہر روز دس بار الحمد للہ کہے ، الحمد للہ شکر کا بہت ضعیف مرتبہ ہے ، لیکن شکر قلب یہ ہے کہ انسان مبدا و معاد پر ایمان حاصل کرے ۔

حجت الاسلام انصاریان نے اس بیان کے ساتھ کہ جب انسان خدا پر یقین رکھتا ہے تو اس کا قلب اس کی عظمت پر شاکر ہوتا ہے بیان کیا : اگر خداوند عالم اور قیامت اور انبیاء پر یقین نہ ہو تو دل کافر ہے ، کیوںکہ کفر اور ایمان دل کی خصوصیتوں میں سے ہے ؛ اگر قلب اپنے مالک کی زحمت کے ذریعہ ، علم حاصل کرنے کے ذریعہ ، مطالعہ کے ذریعہ مبدأ و معاد کو سننے کے ذریعہ یقین حاصل کرے تو اس کا دل شکر کرنے والا ہے ؛ اور جب اپنے اعضا وجوارح کو خالصتا عبادت میں مشغول کرے تو اس کے اعضا و جوارح کا شکر ہے ۔ دل کی عبادت بہت عظیم مراتب کا حامل ہے ۔

انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ اعضاء و جوارح کی عبادت با اہمیت ہے اور ہر انسان کا عقل اس کو ہدایت کرتا ہے کہ نعمتوں کا شکر ادا کرے بیان کیا : کس انسان کا عقل اس کو کہتا ہے کہ خداوند عالم کی نعمتوں کے مقابلہ میں اپنے سینہ تانوں اور الٹی سیدھی بکواس کرو ؟ کوئی عقل بھی ایسا حکم نہیں کرتا ہے ؛ عقل کے احکامات مثبت ہیں ، کیوںکہ عقل خود ایک ملکوتی ، الہی و حقیقی عنصر ہے اور پروردگار کے ساتھ ہے ، عالم ہستی کی عقل کلی کی ایک شعاع ہے اور اس وجہ سے کبھی بھی ہم کو منفی حکم نہیں دیتا ہے ؛ بلکہ کہتا ہے : نعمت کے سامنے اس نعمت کا شکر گزار رہو ۔ شکر گزاری کو قرآن کریم معین کرتا ہے کہ شکر گزاری کیا ہے اور جب انسان شکر گزار ہوتا ہے اس کے بعد وہ اہل نجات و بہشت ہوتا ہے ۔

استاد انصاریان نے اصول کافی کی جلد ایک میں نقل ہوئی ایک خوبصورت روایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : «العقل ما عبد به الرحمان و اکتسب به الجنان» ، عقل ہے کہ جو تم کو شکر کی طرف ہدایت کرتا ہے ، عقل ہے کہ جو طاقت رکھتا ہے کہ تمہارے لئے بہشت حاصل کر سکے ؛ اگر یہ عقل نہ ہوتا تو ہم بھی ایک حیوان کی طرح ہوتے ، لیکن دو پاو و دوسری امتیازی خصوصیت نہیں رکھتے ؛ پروردگار عالم کی طرف سے ہم پر کرم و رحمت عقل و آزادی کی وجہ سے ہے ؛ وظیفہ ، مثبت ، مستحکم و مفید پروگرام کا ایک سلسلہ ہماری کامیابی کے لئے ہم کو عطا کیا گیا ہے اور یہ پروردگار عالم کے سامنے ہماری اہمیت ہونے کی وجہ سے ہے ۔

انہوں نے آزادی کی وہ قسم یں جس کو مغرب زمین بیان کر رہی ہے اس کو غلط قرار دیا ہے اور کہا : مغرب زمین جس چیز کو آزادی سے تعبری کرتی ہے وہ حقیقت میں قید و اسارت ہے جھوٹ بولی جا رہی ہے کہ یہ آزادی ہے ! جو کوئی خود کو غیر شرعی خطرناک خواہشوں کی دریا میں چھوڑ دے وہ سود خوری ، زنا ، جھوٹ ، جرم و قتل و غارت میں مبتلی ہو جاتا ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ اسیر و قیدی ہے ۔ مغربی عوام حکومتی قانون پر عمل کونے اور ڈرائوینگ کے قانون کا پاس و خیال رکھنے کے علاوہ ان کے دل میں جو آتا ہے انجام دیتے ہیں ۔ کرپشن کا مکمل ایک دریا ہے ، اقتصاد میں کرپشن ، سماج میں فساد ، فکر میں فساد ، جنسی غرائز میں فساد ان سب کو آزادی کا نام دیا ہے اور اسارت و قید کے لفظ کو آزادی سے بدل دیا ہے ۔ جو شخص حرام مال ، حرام شہوت ، حرام زبان و حرام نگاہ کا اسیر ہو وہ انسان کی آزادی نہیں ہے ۔

استاد انصاریان نے کہا :  پروردگار نے جو ہم لوگوں کو آزادی عطا کی ہے وہ انبیاء کی بعثت اور اماموں کی امامت اور بہشت و جہنم کے وجود کا سبب بنی ہے ؛ اگر ہم لوگوں کے پاس یہ الہی آزادی نہ ہوتی تو نبوت ، امامت ، بہشت اور دوزخ نہیں ہوتا ۔ /۹۸۹/ف۹۳۰/۱۱۳۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬