رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله العظمی جوادی آملی نے شہر دماوند کے حسنیہ احمد آباد میں منعقدہ اپنے ہفتگی درس اخلاق میں عرفہ و عید الاضحی کے ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : یہ ایام ہمارے دین کی اصل عید ہے حقیقت میں پردگار عالم سے مناجات و دعا کے مخصوص ایام ہیں ۔
انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : دین اسلام نے انسان کو خداوند عالم سے قربت حاصل کرنے کے لئے بہت سارے راستے معین کئے ہیں ، اس میں سے ایک راستہ علم و عالم ہونا ہے تا کہ انسان خود کو پہچانے ، اپنے سلسلہ میں عالم و جہان کا شناخت حاصل کرے اور اپنے اور عالم کے درمیان کے رابطے کو پہچانے اور سمجھے یہ سب کے سب ایک مدبر کے زیر تدبیر ہے جس کا نام خدا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے بیان کیا : انسان کے لئے خداوند عالم سے قربت حاصل کرنے کا دوسرا راستہ عبادت ہے کہ وہ بھی علم کے ساتھ ہے یعنی انسان کو چاہیئے کہ وہ علم و شناخت کے ساتھ عبادت کرے اور جانیں کہ وہ کس کی عبادت کر رہا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے دعا اور مناجات کی اہمیت کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم سے تقرب کے دو راستے بیان ہو چکے ہیں اور خداوند عالم کے درگاہ سے قربت حاصل کرنے کا تیسرا راستہ علم و عبادت کے درمیان جمع کرنا ہے کہ وہی دعا و مناجات ہے ۔ دعا اس مفہوم سے نہیں کہ صرف خداوند عالم سے کوئی چیز طلب کی جائے بلکہ ہم دعا میں خود کو مضطرو محتاج کی حالت میں پیش کریں اور اپنے عمر کا آخری لمحہ فرض کریں اور اسی طرح خدا کو پکاریں جیسے کہ اس کے بعد پکارنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ اس نالہ و زاری کو خداوند عالم پسند کرتا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : علم و دانائی اور مالک کے درمیان فرق ہے ۔ بہت سے لوگ دانا ہیں اور صاحب علم ہیں لیکن اپنے علم پر عمل نہیں کرتے ہیں اور اصطلاحی صورت میں وہ صاحب علم نہیں ہیں ۔ اہل بیت علیہم السلام کے مطابق دعا عبادتوں کا مغز ہے اور مالک ہونے کا راستہ ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوند عالم کے حکم پر جناب ہاجرہ اور ان کے نومولود بچے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے سرزمین پر تنہا چھوڑ دیا تو حضوت ہاجرہ نے سوال کیا کہ اس بیانان میں ہم لوگوں کو کس کے بھروسے پر چھوڑ رہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ یہ سرزمین کا بھی کوئی مالک ہے اور تم اور تمہاری اولاد کو اس سرزمین کے مالک کے حوالے کرتا ہوں ۔ دعا ہم لوگوں کو ایمان کے اس مرحلہ پر پہوچاتا ہے ۔ جیسا کہ خانہ کعبہ دعا کے قبول ہونے کی جگہ ہے عرفہ کا روز بھی دعا کے قبول ہونے کا روز ہے ، اگر چہ دعا میں علم و عمل دونوں ایک ساتھ ہونا چاہیئے ۔
انہوں نے وضاحت کی : قرآن کریم کے بیان کے مطابق انسان ایک موجود ابدی و جاوید ہے اور ابدی موجود کے لئے ابدی اشیاء و راہ سفر کی ضرورت ہے ۔ انسان کے لئے بہترین ابدی مال یہ دعائیں ہیں کہ جو نالہ و گریہ و زاری کے ساتھ ہو لہذا روز عرفہ کے بہترین موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے کویںکہ ہم لوگوں کے سامنے سخت حادثات ہیں کہ روز عرفہ اس سخت حادثات کے ایام کی تیاری کے لئے ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے تاکید کی : خداوند عالم فرماتا ہے کہ اکثر مومنین کے اندر ایک خفیف شرک پایا جاتا ہے ۔ اکثر افراد اپنے اندر مال و مقام کی پرستش کرتے ہیں ۔ عرفہ کا روز وہ روز ہے کہ انسان اپنے اندر سے اس خفیف شرک کو دور کر سکتا ہے اور خداوند عالم کو موحدانہ طور سے پکارے ۔
انہوں نے تاکید کی : اس ایام میں اگر کسی کا حق ہمارے ذمہ ہے تو اس کو ادا کریں اور دوسروں کو اپنے دعا میں محروم نہ کریں ، سب کے لئے دعا کریں اور جان لیں کہ کوئی بھی چیز خداوند عالم کے بے انتہا کرم سے کم نہیں ہوتا ہے بلکہ خود یہ دعا سبب ہوتا ہے کہ خداوند عالم ہم لوگوں پر زیادہ عنایت و لطف کرتا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۸۵۵/