رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد نے مسجد امیر المومنین (ع) میں منعقدہ تفسیر قرآن کریم کے جلسہ میں بیان کیا : صرف خاضع لوگ نماز کا احترام کرتے ہیں ۔
انہوں نے اپنے تفسیر کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سور تریپن آیت «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ» کی تلاوت کرتے ہوئے وضاحت کی : صبر اختیار کرنا اخلاقی مقاصد کے حصول کا ایک راستہ ہے ؛ جس آیت شریفہ کی آج تلاوت کی ہے کئی بار قرآن کریم میں اس کی تکرار ہوئی ہے ؛ قرآن کریم اس آیت میں فرماتا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو کہ خداوند عالم صابرین کے ساتھ ہے اور دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو اور صرف وہ افراد نماز کا احترام کرتے ہیں جو باطنی خضوع و خشوع کے حامل ہیں ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اس بیان کے ساتھ کہ تلاوت کی گئی آیت کا مختلف مقام پر تکرار انسانی زندگی میں نماز و صبر کو اختیار کرنے میں بہت ہی اہمیت کی طرف دلالت کرتا ہے بیان کیا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کہ حیرت انگیز صبر رکھتے تھے کہ جس کی وجہ سے مکہ میں ان پر تیرہ سال تک ہوئی اذیت و مصائب کو براداشت کر سکے ؛ وسائل و امکانات نہ ہونے کے با وجود ایک کے بعد دوسرے جنگ میں مسلمانوں کی کامیابیوں میں ختم ہوئی اور نقل ہوا ہے کہ بعض وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنگوں میں مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرتے تھے اور ایک ساتھ نماز پڑھنے کو کہتے تھے جس کی وجہ سے جنگ کی سختی و مشکلات ختم ہو جایا کرتی تھیں اور دشمن کے مقابلہ میں کامیابی حاصل ہوتی تھی ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے بیان کیا : معصومین علیہم السلام کی روایت بیان کر رہی ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام جب حضرت فاطمہ الزہرا (س) اس دنیا سے رخصت ہوئی تو کئی بار نماز ادا کی ؛ کہا جاتا ہے کہ ایک برتبہ حضرت فاطمہ الزہرا (س) کو غسل دینے سے پہلے اور ایک مرتبہ صدیقہ طاہرہ مظلومہ عالم کو دفن کرنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھی تا کہ اس عظیم غم و مصیبت کو تحمل کر سکیں ۔
حوزوہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : ایک روز ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہوچا اور عرض کیا کہ میں ایک گلی سے گذر رہا تھا کہ ایک خاتون ٹھوکر لگنے کی وجہ سے زمین پر گڑ گئیں اور بلند آواز میں کہا کہ خداوند عالم حضرت زهرا (س) کے قاتلین پر لعنت کرے ، اس وجہ سے پلیس نےان کو پکڑ لیا اور حاکم کے پاس لے کر چلے گئے ، آپ کی نظر میں ان کے لئے ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں ، امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : چلئیے ہم سب لوگ مسجد چلتے ہیں اور اس خاتون کی آزادی کے لئے نماز سے متوسل ہوتے ہیں ؛ امام صادق علیہ السلام اور سب لوگ نماز ادا کرنے کے لئے مسجد گئے ، ان لوگوں کی نماز ادا کرنے کے فورا بعد ایک شخص آیا اور اس نے امام صادق علیہ السلام کو اس خاتون کے رہائی کی خبر دی ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ خداوند عالم کے ساتھ خالصانہ رابطہ قائم ہونا ایک طرح کے نماز میں شمار ہوتا ہے بیان کیا : امام معصوم علیہم السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ مشکلات میں گرفتار ہونے پر دو رکعت نماز سے مشکلات کو ختم کیا جا سکتا ہے ؛ انسان جب تنہائی میں گرفتار ہو جائے تو اس کا بہترین راہ حل نماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنا ہے ؛ ایک شخص بیان کر رہا تھا کہ بیابان میں میری گاڑی خراب ہو گئی اور اس قدر ٹھنڈک تھی کہ احساس کیا کہ اب میری عمر کا آخری وقت ہے اسی وجہ سے خداوندعالم سے خالصانہ کہا کہ اگر اس حالات سے رہا ہوئے تو زندگی کے آخری عمر تک گناہ نہیں کرونگا ، اس شخص نے کہا کہ کچھ دیر بعد ایک شخص آیا اور بولا کہ جاو اپنی گاڑی اسٹارٹ کرو ، میں نے کہا کہ میری گاڑی خراب ہو گئی ہے وہ اسٹارٹ نہیں ہو رہی ہے تو اس شخص نے کہا جو کام کہہ رہا ہوں اس کو انجام دو تو میں نے بھی اس کی بات پر عمل کیا اور تعجب کے ساتھ دیکھا کہ گاڑی اسٹارٹ ہو گئی ، میں نے اس شخص سے کہا آپ کے لئے کیا کام کروں تو اس شخص نے جواب دیا کہ جو وعدہ خداوند عالم سے کیا ہے اس پر عمل کرو ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے کہا : دنیا سے بیزاری دعا کے قبول ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے ؛ لوگ ناچاری و پریشانی کی حالت میں ایک موجود کو اپنے اعمال و حالات پر عالم پاتے ہیں کہ جس کے سلسلہ میں قران کریم فرماتا ہے کہ وہ موجود خدادند عالم ہے ۔ اگر انسان دو رکعت نماز پڑھے ایسے حالات میں کہ غیر خداوند عالم کسی دوسرے سے کوئی امید نہیں ہے تو یقینی طور سے اس کی دعا قبول ہوگی ؛ یہ مسئلہ معصومین علیہم السلام کی روایت اور لوگوں کے تجربات سے قابل توثیق ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک ۹۷۴/