رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد نے شہر اصفہان کے مسجد امیرالمومنین علیہم السلام میں منعقدہ اپنے تفسیر قرآن کے جلسہ میں بیان کیا : تمام فضیلتیں صبر کے توسط سے حاصل ہوتی ہیں ۔
انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سو تریپن آیت کی تفسیر کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ» کی تلاوت کرتے ہوئے وضاحت کی : اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ خداوند عالم سے مدد حاصل کرنے کے لئے صبر اور نماز میں جدیت ہونی چاہیئے تا کہ خداوند عالم کی عنایت آپ کے زندگی میں شامل حال رہے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے بیان کیا : پرودگار کے ساتھ ہونا عظیم مقام ہے کہ جس کی وجہ سے انسان پر کبھی بھی راستے بند نہیں ہوتے ہیں ؛ صبر امّ الفضائل ہے یعنی تمام فضائل ان خصلت سے نشات پاتی ہیں ، دنیا و آخرت میں انسان کی کامیابی صبر اختیار کرنے پر منحصر ہے ؛ صبر کی مختلف تقسیم بندی کے ساتھ تحقیق و برسی کی گئی ہے ، اس تقسیم میں پہلا قسم فردی صبر ہے ، صبر خانوادی و صبر اجتماعی بھی ہے اور دوسری تقسیم بندی جو قرآنی و روائی بنیاد پر ہے ، مصیبت و مشکلات میں صبر کرنا ہے ، اطاعت اور گناہ کو ترک کرنے میں صبر ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے اس بیان کے ساتھ کہ علماء اخلاق دوسری تقسیم بندی پر زیادہ تاکید کرتے ہیں بیان کیا : انسان کو جاننا چاہیئے کہ دنیا میں سو فیصد خوشی حاصل کرنا محال ہے ؛ کوئی بھی انسان اس دنیا میں نہیں ہے کہ جس نے دنیا کے غم و مشکلات سے رو برو نہ ہوا ہو ؛ دنیا خوشی و غم و مشکلات سے مل کر بنا ہے ؛ بزگ کہتے ہیں کہ ہر گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹا ہے یعنی یہ کہ دنیا کا لازمہ غم و مشکلات ہے ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : اس مطالب پر توجہ کرنا ضروی ہے کہ دنیا نشیب و فراز سے بھڑا پڑا ہے ؛ امیر المومنی علی علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں ، دنیا کے حالات ایک روز تمہارے مفاد میں ہے اور ایک روز تمہارے خلاف ہے ؛ یہ بے معنی ہے کہ انسان دنیا میں ہو اور مشکلات سے رو برو نہ ہو ؛ امیر المومنی علی علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ دنیا دریا کی طرح گہرا ہے کہ اپنے گہرائی میں بہت سے لوگوں کو غرق کر لی ہے ۔
انہوں نے کہا : مصیبت زیادہ اور کم ہونے کے لحاظ سے فرق کا حامل ہے ، وہ چیز جو جاننا چاہیئے وہ یہ ہے کہ اسی مصیبت کی وجہ انسان روحی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے اور صبر کے ملکہ کو حاصل کرتا ہے ، صبر کا ملکہ یعنی انسان اس مقام تک پہوچ جاتا ہے کہ خود بخود مشکلات و مصیبت میں صبر کرتا ہے ؛ جس انسان کے وجود میں ملکہ صبر پایا جاتا ہے اس کی زندگی آسانی سے گزرتی ہے لیکن جس انسان میں صبر نہیں ہے خود تنکے کو پہاڑ بنا دیتا ہے اور مسلسل بیچین و سر و صدا کرتا ہے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اس بیان کے ساتھ کہ تسلیم و رضا کے مقام تک پہوچنے کا لازمہ یہ ہے کہ شخص ملکہ صبر حاصل کی ہو ، بیان کیا : علماء کا عقیدہ ہے کہ انسان ایک دانہ گیہوں کو کھاتا ہے تو اس کے وجود میں مختلف تبدیلی کے بعد وہ نطفہ بن جاتا ہے ، یہ نطفہ اس مقام تک پہوچ سکتا ہے کہ اس کا پورا وجود ملکوتی ہو اور یا یہ کہ شقی ترین انسان ہو ؛ اس سلسلہ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ۹۰ فی صد افراد صبر اختیار کرنے کے سخت راستے کو طے کرنے میں خداوند عالم کی بندگی سے منصرف ہو جاتے ہیں اور وہ افرد جو عظیم ملکوتی مقام کو حاصل کر پاتے ہیں وہ کم ہیں ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیک سو چھپنویں اور ایک سو سنتانویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے «الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِکَ عَلَیْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِکَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ» وضاحت کی : قرآن مجید کی طرف سے مصیبت میں صبر کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ، انسان جب مشکلات و مصائب پر صبر کرتا ہے تو خداوند عالم کی طرف سے رحمت و صلوات اس کے سر پر نازل ہوتی ہے اور نیک راستہ کی طرف اس کو ہدایت کی ہوتی ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۸۵۲/