رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سربراہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان حجت الاسلام راجہ ناصر عباس جعفری کا محرم الحرام 1439ء کے حوالے سے خصوصی پیغام ہلال محرم 1439ء ایک بار پھر نواسہ ء رسول حضرت امام حسین علیہ السلام ان کے اصحاب و یاوران و کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر طلوع ہو رہا ہے۔
دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میں خصوصی طور پر امت مسلمہ اس ماہ جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ ﷺ کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10محرم اکسٹھ ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔
میدان کربلا میں نواسہ رسول اور ان کے باوافا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لیئے اسو ہ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہیں،کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت سے ہم کو درس حریت و آذادی ملتا ہے یہ کربلا ہی ہے جو آذادی کا پیغام دیتی ہے،کربلا کا درس ہے کہ بصیر ت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدا ر رکھا جائے ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں پیدا کرتے رہیں گے۔کربلا ایک لگاتار پکار ہے،یزیدیت ایک فکر اور سوچ کا نام ہے اسی طرح حسینیت بھی ایک کردار کا نام ہے،اگر کوئی حکمران اسلام کا نام لیوا اور کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کے کام یزید کے جیسے ہیں تو وہ دور حاضر کا یزید ہی ہے۔
یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول جسے امت کے سامنے محمد مصطفیٰ ﷺنے تربیت کیا تھا سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا،آپ کی قربانی آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی بقا کی اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔
یہ تاریخی و بے مثال قربانی اور نمونہ ء ایثار و شجاعت سے ہمارے لیئے درس کا باعث ہے،اس شہادت میں بہت سے درس اور راز و سر موجود ہیں،ہمیں چاہیئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں او ریزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں بالخصوص امت مسلمہ کی وحدت و بھائی چارہ پر فرقہ واریت کے منحوس سائے نا پڑنے دیں۔
یہ قربانی کس قدر بے مثال ہے کہ جس سے چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ایسے ہی درس و سبق حاصل کیئے جاتے ہیں جیسے ابھی کل ہی ہونے والے کسی واقعہ سے انسان کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرتا ہے،حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے تو اس واقعہ میں حضرت اباعبداللہ الحسین کی داستان شہادت میں پنہاں اسرار و رموز کو سامنے لانے کی تڑپ کا اظہار کیا ہے اور برملا کہا ہے کہبیاں سر شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
مسلمانوں کا قبلہ روضہ ء شبیر ہو جائے
یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ علامہ اقبال تو حضرت امام حسین اور ان کے اصحاب کی قربانیوں کی داستان اور اسرار کو اس قدر اہم جانتے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہے کہ اگر یہ راز کھل جائیں اور امت اس سے آگاہ ہو جائے تو اپنا کعبہ و قبلہ ہی تبدیل کر لیں مگر اس ملک میں بسنے والے بہت سے تعفن و تعصب ذدہ لوگ محرم الحرام میں شہادت و شجاعت کی اس داستان کے بیان کی محافل کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنی پست ذہنیت پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،افسوس ان حکومتوں پر ہوتا ہے جو امام حسین کی اس تاریخی و بے مثال قربانی بیان کرنے کیلئے لائسنس اور پابندیوں کا شکار کرتی ہے۔
بلا اجازت جلوس و مجلس برپا کرنے کو جرم قرار دیتی ہے اور اس محرم کی آڑ میں ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈالتی ہے۔یہ مفکر پاکستان اور مصور پاکستان کی فکر سے مکمل انحراف ہے اور کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ علامہ کا دل دکھانے کا باعث بھی ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج بانی پاکستان اور مصور پاکستان حیات ہوتے تو پاکستان میں نواسہ رسول ﷺ کی قربانی کے ذکر کی محافل ایسی ہی پابندیوں کی ذد پہ ہوتیں؟ ہرگز نہیں،بلکہ بانی پاکستان اور مصور پاکستان ان مجالس و محافل کا حصہ ہوتے،علامہ اقبال تو وہ سر اور راز کھول کھول کر بیان کرتے جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے قبلہ کو تبدیل کر سکتے تھے،پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمران ان محافل و مجالس کو نشانہ بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں کھل کھیلنے کا پورا موقعہ مہیا کرتے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۴۰/