‫‫کیٹیگری‬ :
17 October 2017 - 23:55
News ID: 430418
فونت
آیت‎الله جوادی آملی :
حضرت آیت ‎الله جوادی نے قرآن کریم میں تدبر کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : انسان کو اپنی حاصل کردہ علم کو قرآن کے مقابلہ میں نہیں لانا چاہیئے ، بلکہ جو درس حاصل کی ہے اس کے ذریعہ قلب کو وسعت عطا کرنے اور سننے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں استفادہ کرے ۔
آیت‎الله جوادی آملی

 

قرآن کریم میں تدبر کا معنی قلب کو وسعت عطا کرنا اور آیات کے سننے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے

حضرت آیت الله جوادی نے قرآن کریم میں تدبر کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : انسان کو اپنی حاصل کردہ علم کو قرآن کے مقابلہ میں نہیں لانا چاہیئے ، بلکہ جو درس حاصل کی ہے اس کے ذریعہ قلب کو وسعت عطا کرنے اور سننے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے میں استفادہ کرے ۔

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبد الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ الرحمن کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں بیان کیا : پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہم تک پہونچی ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ سورہ عروس قرآن کریم ہے اور الہی نعمات اس سورہ میں بیان ہوا ہے اور الہی نعمات کے اہم حصہ کو بیان کیا گیا ہے اور الہی نعمتوں میں عظیم نعمت علم القرآن الکریم ہے ، اگر چہ علم کی خاص فضیلت ہے ، معلومات علم کو شرف عطا کرتا ہے ، کیوںکہ معلوم قرآن کریم ہے ، اس کا دوسرا معادل نہیں ہے ، معلم «الرحمن» اور معلوم بھی قرآن کریم ہے ۔

انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ کوئی چیز قرآن کریم سے عظیم نہیں ہوگا بیان کیا : قرآن کریم کے تفسیر میں دوسرے متون کی طرح عمل نہیں ہونا چاہیئے ، شارح دوسری کتابوں میں مولف کی باتوں کی وضاحت کرتا ہے اور اپنے نظر کو بیان کرتا ہے اور کبھی کبھی اس میں اضافہ و کمی یا کبھی نقد بھی پیش کرتا ہے ، قرآن کریم کی تفسیر میں کسی بھی طرح اس طرح تشریح نہیں ہوتی ہے کہ شارح خداوند عالم کے کلام کی شرح کرے ، قرآن کریم کی حقیقی تفسیر عترت ہیں اور عترت قرآن کے عدل ہیں اور دوسرے جو تفسیر کرتے ہیں وہ ان کے بیان کئے گئے کلام کی شرح کرتے ہیں اور خداوند عالم کوئی بات اپنے غیر کےلئے نہیں رکھی ہے اور صرف فرمایا ہے کہ سنو اور اس سے مراد دل سے سنو رونہ سر میں سب کے کان تو ہیں ۔  

قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے بیان کیا : بعض مواقع پر کان بند ہے اور کبھی تو دل کی سنوائی بھی بند ہے ، اگر دل بند ہے تو انسان قرآن کریم کو نہیں سن سکتا ہے «و إذا قری القرآن فاستمعوا له و أنصتوا لعلکم ترحمون»، قرآن کریم کا مفسر شارح کا ترجمان ہے اور اس کو اس کا خلیفہ ہونا چاہیئے ، اسی وجہ سے فرمایا «إنما من یعرف القرآن من خوطب به» ، یک طرف قرآن کریم علی الحکیم ہے اور ایک طرف عربی مبین ہے ، جب امام معصومین آیت کے سلسلہ میں کوئی مطالب سنتے تھے تو سوال نہیں کرتے تھے کہ یہ کس آیت سے استفادہ ہوا ہے ۔

انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ قرآن کریم کا دوسرا حصہ خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے بیان کیا : اگر کوئی قرآن کریم کے خدمت میں رہا اور اس کتاب کو حاصل کر لیا تو حبل متین سے منسلک ہو گیا ، یہ طناب نہ کمزور ہونے والا ہے اور نہ ہی ٹوٹنے والا ہے اور نہ ہی گرنے والا ہے کیوںکہ اس کا ایک سرا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ، قرآن کریم سے منسلک رہنے والے کے لئے کوئی لغزش نہیں ہے ، کوئی اس کتاب کو تباہ نہیں کر سکتا ہے ، اگر بارش کی طرح زمین میں ڈال دیا جاتا تو امکان تھا مدت زمان میں وہ ختم ہو جائے لیکن ایسا نہیں ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۲۳/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬