رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیتالله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ «الرحمن» کی ابتدائی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : اس سے بہتر انسان ممکن نہیں ہے اور اگر اس سے بہتر موجود ہو تو وہ فرشتہ ہے اور خداوند عالم نے بہت زیادہ فرشتہ خلق کیا ہے ، اگر اس سے بہتر انسان کو خلق کرنا ممکن ہوتا اور خداوند عالم نے خلق نہیں کیا تو اس کی تین صورت فرض کیا جاتا سکتا ہے یہ کہ ایسا جہل کی وجہ سے ممکن ہے یا بخل کی وجہ سے ہو سکتا ہے یا عجز کی وجہ سے ہے ، حالانکہ خداوند متعال جو کہ قادر مطلق ہے اس کے لئے یہ تین صورت محال ہے اور یہ بھی کہ خداوند عالم نے بہترین عالم کو خلق کیا ہے اس سے زیبا ترین و بہترین ممکن نہیں ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اگر چاہتا ہے ایک موجود انسان ہو تو اس کو آزاد ہونا چاہیئے ، اگر یک طرفہ ہو تو وہ انسان نہیں ہے ، انسان کو آزاد ہونا چاہیئے کہ خود راستے کو انتخاب کرے ورنہ یا جماد یا فرشتہ ہوگا ، خورشید و ماہ و آفتاب اس سے بہتر ممکن نہیں ہے، ایک موجود جس کا نظم عین مطابق و حساب ہوا ہے اور جس کی حرکت بھی اس لئے ہو کہ جہان کی ضرورت کو فراہم کرے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : خداوند عالم نے کسی بھی چیز کو ناقص خلق نہیں کی ہے اور اس نے کامل خلق کیا ہے لیکن یہ چیز اگر متحرک ہے تو اس کو حرکت کرنا چاہیئے اور کمال کو حاصل کرے ، نہ یہ کہ انسان کو پیدائش کے وقت بطوت اکمل خلق کیا ہو ، ہر موجود کو بہتیرن طریقے سے خلق کیا ہے ، ایک موجود میں پائی جانے والے تمام لزومات دی ہے ، حیوانوں کو شکار کی صلاحیت دی ہے اور دوسرے حیوان کو دفاع اور فرار کرنے کی طاقت عنایت کی ہے ، جس نے جو چیز طلب کی خداوند عالم نے اس کو عطا کی ہے ، انسان نے آزادی چاہی تو خداوند عالم نے اس کو آزادی بخشی ، آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے ، فرمایا دین میں کوئی جبر نہیں ہے لیکن دو راستہ میں ایک بہشت و دوسرا جہنم ہے ، دونوں راستہ انسان کے اختیار میں ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اس اشارہ کے ساتھ کہ اس دنیا میں کوئی انسان گناہ نہں کرتا ہے سوائے انسان کے بیان کیا : کوئی پتھر و کوڑا گناہ نہیں کرتا ہے ، ہم نے زمین سے کہا اور آسمان سے بھی کہا ہے کہ ہمارے تابع رہو ، تو اس کی طر سے جواب دیا گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کام کو رغبت و چاہت کے ساتھ انجام دوں ، اس عالم میں کوئی موجود گناہ نہیں کرتا ہے سوائے انسان کے ، اگر انسان غلط راستے کو اختیار کرتا ہے تو جس زمین پر وہ چلتا ہے وہ زمیں اس پر لعنت کرتی ہے اور جو بادل اس پر سایہ کرتا ہے اس پر لعنت بھیجتا ہے ، اگر زمین کو حکم دیا کہ قارون کو نگل جاو تو کہتا ہے تعمیل کرونگا ، اگر کہے کہ دریا خشک ہو جاو تو وہ اس حکم کی تعمیل کرتا ہے ! اس عالم میں کسی نے نافرمانی نہیں کی ہے ، چاند سے کہتا ہے شکافتہ ہو جاو تو کہتا ہے کہ حکم کی تعمیل ہوگی ، اس عالم میں کونسی چیز ہے کہ جو اپنی رغبت و چاہت سے خداوند عالم کی اطاعت نہیں کرتا ہے ، خداوند عالم نے ان تمام چیز جس کو خلق کیا ہے رہا نہیں کیا ہے اور اس مخلوق نے بھی خداوند عالم کو نہیں چھوڑا ہے ۔
انہوں نے بیان کیا : جو فیض بھی ہے خداوند عالم کی طرف سے ہے ، زندگی اور موت بھی اس کے ہاتھ میں ہے ، کوئی چیز بھی زندگی دینے والا نہیں ہے ، ممکن ہے ظاہری طور سے کوئی فکر کرے کہ فلان دوا با اثر رہا ہے اور فلان بیماری کو فلاں ڈاکٹر نے شفا دی ہے ، فرمایا جس طرح زمین و آسمان کو خلق کیا ہے اسی طرح موت و زندگی کو بھی خلق کیا ہے ، ایسا خیال نہ کرنا کہ پیڑ و پودے کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے ، تم جو کسان ہو تمہارا کام زراعت کرنا نہیں ہے ، بلکہ ہمارا کام زراعت ہے ، تمہارا کام انبارداری اور انبار سے زمین میں بیج کو نقل و انتقال کرنا ہے ، تم ایک بوری گینہوں کو انبار سے لاتے ہو اور اس کو زمین کے اندر بو دیتے ہو ، زارع ہم ہیں تم بونے والے ہو ، تم حارث ہو ، وہ جو کہ فرمان دیتا ہے اور اس مردہ دانہ کو زندہ کرتا ہے اس کو حیات دیتا ہے خداوند عالم ہے ، تم نے بیج کو بو دیا اور اس کے بعد کی تم کو خبر نہیں ہے ، حیات اور موت خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ، نجم و شخر اس کا سجدہ کرتے ہیں ، دوسرے موجودات اس کا سجدہ کرتے ہیں کیوںکہ خداوند عالم نے اس کو زندہ کیا ہے ، «وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ » موت بھی اس کے ہاتھ میں ہے ۔