تحریر: میم نون خان
حقیقت یہ ہے کہ چوری، لوٹ مار، کرپشن، لاقانونیت اور فساد کے خلاف وہ لوگ معترض ہوتے ہیں، جن کا اپنا دامن پاک ہوتا ہے، جو خود بھی کرپش میں سر تک ڈوبے ہوں، وہ دوسروں کی کرپش کے خلاف کیسے اقدام کرسکتے ہیں؟! ہمارے ہاں اگر کوئی ایک بندے کی چوری کرے تو سسٹم اور قانون اس کو سزا دینے پر آمادہ نظر آتا ہے، جبکہ جو لوگ پورے ملک کی چوری کریں، عوام کے حقوق کھائیں، وہاں پر سسٹم خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ بڑے بڑے پراجیکٹس اور ملکی و غیر ملکی معاہدوں میں چوری کرنا پاکستان اور ہندوستان میں عام سی بات ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے جب یہ بڑے بڑے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف بھی بول رہے ہوتے ہیں تو اس میں بھی انکا مطمعِ نظر یہ ہوتا ہے کہ چونکہ چوری میں ہم کو کم حصہ ملا تھا، اس لئے تم نے زیادہ کیوں لیا؟ اگر لوٹے ہوئے مال میں تھوڑا سا مزید حصہ مل جائے تو ہماری سو نسلیں بھی چپ۔۔۔۔
کسی نے بابا جی سے پوچھا: دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش بزنس کون سا ہے؟ وہ مسکرائے اور بولے: "سیاست"، جہاں لاکھوں لگائے جاتے ہیں، تاکہ کروڑوں کمائے جائیں۔ یہاں کون نہیں جانتا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈرز کے پاس اربوں ڈالرز کہاں سے آتے ہیں؟! لیکن ان میں سے جب بھی کوئی اقتدار میں آتا ہے تو دوسرے کے خلاف کوئی بڑا عملی اقدام نہیں اٹھاتا؛ پورا سسٹم ایسا بنا رکھا ہے کہ اکثر وہی لوگ اقتدار میں آسکتے ہیں، جو خود دو نمبر ہوں، تاکہ معاشرے کے دو نمبر افراد کے مفادات کا تحفظ کرسکیں اور اگر دو چار اچھے افراد منتخب بھی ہو جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں، آخر ان کی آواز اس نقارخانے میں کون سنے گا؟ جبکہ صاحبانِ اختیار بھی اقتدار کی مسند پر بٹھانے کے لئے ایسے ہی افراد چنتے ہیں، تاکہ جب چاہا ان کو بلیک میل کر لیا۔ مقتدر افراد کرپٹ سیاست دانوں کو ہی اوپر آنے دیتے ہیں، تاکہ ان کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے اور اگر کسی لیڈر نے ضرورت سے زیادہ لیڈری دکھائی تو اس کی اصل تصویر اسکو دکھا کر خاموش کروا دیا گیا۔
جب تک موجودہ نظام اور سسٹم موجود ہے، یہی کرپٹ افراد منتخب ہوں گے، الیکشن کمیشن صاحبانِ اختیار کے اشارے پر ان ہی افراد کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیتا رہے گا، جہاں الیکشن جیتنے کے لئے پیسہ، جھوٹ، تعلقات، خاندان، بدمعاشی اور مکّاری کا ہونا پہلی شرط ہے؛ علم، شعور، دیانت اور فہم و فراست نہ بھی ہو تو کام چل جائے گا، اور لیڈر کا بیٹا ہی لیڈر بنے گا، چاہے اس کی خرابیاں جتنی بھی عام ہو جائیں۔ 70 سال سے ایک ہی قسم کی جونکیں اس معاشرے کا خون چوس رہی ہیں، جہاں صاحبان اقتدار اپنے صاحبان اختیار کے لئے لوگوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں جبکہ جس طرح اربوں چوری کرنے والا شخص ایک دو مساجد تعمیر کرکے سادہ لوح عوام سے اپنی نیک سیرتی اور باقی فاسد پیسوں کی حلالیت کا سرٹیفکیٹ لے لیتا ہے۔
اسی طرح یہ فاسد نظام بھی سینکڑوں چوروں میں سے ایک دو کو معمولی سزا دے کر سادہ لوح عوام سے اپنی پاکیزگی کی خاموش تائید لے لیتا ہے۔ اگر کوئی اس فاسد نظام کے خلاف آواز بلند کرنے کی حرکت کرے، جو اگرچہ ووٹ نہ دینے جیسے چھوٹے سے اقدام ہی کہ صورت میں کیوں نہ ہو، تو نظام کے مالک اس کا وہ حشر کریں گے، تاکہ پھر کوئی ایسی جرأت نہ کرے، اس لئے بہتر ہے ووٹ ضرور دیں اور اگر باقی ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی امیدواروں کے خانوں کے ساتھ ایک اور خانہ بھی بنا دیا جاتا کہ مجھے ان میں سے کوئی بھی قبول نہیں تو سب سے زیادہ مہریں اسی خانے پر لگتیں۔۔۔۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز