رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، گوالا مولوی ، کسان عالم دین ، سبزی فروش طالب عالم وغیرہ وغیرہ یہ وہ عناوین ہیں جو وقت بوقت سوشل میڈیا کی صفحات پر دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ، بہت سارے لوگ ، علماء کے اس طریقہ کار کو پسند کرتے ہیں اور بہت سارے اس صنف کی ذمہ داریوں کو کچھ اور جانتے ہیں جو اس کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتی ، ہم موجودہ تحریر میں اس سلسلہ کی کچھ باتوں کی جانب اشارہ کریں گے ۔
تحریر : حوزوی محققین کا ایک گروہ
ہم ذاتا طلاب اور علماء کی موجودہ معیشتی صورت حال سے متفق نہیں ہیں ، یہ انصاف نہیں ہے کہ طلاب کا ایک گروہ صبح سے شب تک درس و تدریس میں مصروف رہے ، وہ اپنی پوری زندگی اسلام کے لئے وقف کردے مگر انہیں حق الزحمۃ یا ان کی درآمد اتنی ہی ہو جتنا مولوی نما اور طالب علم نما دریافت کرتے ہیں کہ جن کی پوری عمر اور ان کا پورا ھم و غم پیسہ اور درآمد ہو اور وہ اپنا تمام وقت اپنی معشیت کی بہتری میں صرف کرتے ہوں ، البتہ ہم اس تحریرمیں حوزہ علمیہ کے اقتصادی حالات کا تجزیہ نہیں کرنا چاہتے اگرچہ ممکن ہے نتیجہ وہی ہو بلکہ مقصد اس بات کا اثبات ہے کہ ہے آیا علماء و طلاب تبلیغ دین ، تصیف و تالیف اور درس و تدریس کے علاوہ بھی کچھ کریں یا نہ کریں ؟
بعض کا کہنا ہے کہ علماء و طلاب بھی عام لوگوں کے مانند ہیں وہ بھی عوام کے مانند اپنی زندگی کے اخراجات کے لئے کام کریں ، ان گروہوں کے حوالہ سے ثقافتی امور کی انجام دہی جیسے تصنیف و تالیف ، تقریر اور تعلیم کو کام حصہ نہیں قرار دیا جاسکتا ، احتمالا ان لوگوں کے نزدیک «کام» ایک ایسی فعالیت کا نام ہے جو پسینے چھوٹنے ، دلوں کی دھڑکنوں کے تیز ہونے اور ہاتھوں میں زخم کی پٹیوں کے بندھنے کا باعث بنے ! لہذا ان کی نگاہ میں یونیورسٹیز کے اساتذہ ، ڈاکٹرس ، ڈیزائنرس ، صاحبان آئڈیالوجی اور صاحبان نظر اور دسیوں دیگر طبقات کے افراد بیکار شمار کئے جاتے ہیں ! /۹۸۸/ ن ۹۷۵
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔