رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ میں درس اخلاق کے استاد آیت الله کاظم صدیقی نے تہران یونیورسیٹی کے مسجد میں منعقدہ اپنے درس اخلاق میں کہا : سالک الی اللہ کے راہ میں پائے جانے والی اخلاقی مشکلات و خطرات اور نقصانات یہ ہیں کہ حق و باطل کے دو راہ میں حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف چلے جاتے ہیں کہ جس کے بہت سارے مصادیق زندگی میں پائے جاتے ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی : عمر سعد نے امام حسین علیہ السلام کو چھوڑ دیا اور یزید کے ساتھ ہو گیا ، زبیر اس کے با وجود کے امام علی علیہ السلام کے ساتھ تھے امام کو چھوڑ دیا اور فتنہ پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہو لیے اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیا ؛ عمومی طور سے انسان دنیا اور آخرت میں سے دنیا کو انتخاب کرتا ہے ۔
حوزہ علمیہ میں درس اخلاق کے استاد نے بیان کیا : انسان اکثر اخروی مصلحت اور الہی احکامات پر عمل کو دنیا کے فورا تمام ہونے والے مفاد کے حد تک نہیں سمجھتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ قرآن کریم پر بھروسہ کرنے اور اس حد تک علم و مہارت رکھتے ہیں کہ احکام روز کے استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں پھر بھی باطل پر حق کو قربان کر دیتے ہیں ۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : ایثار یعنی مقدم رکھنا اور برتر دیکھنا ہے ؛ کبھی خانوادہ کا باپ خانوادہ کی ماں یا بچوں کی طرف سے جو حق بات کہی جائے اس کو قبول کر لینا چاہیئے جو حقایق کی طرف سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں وہ باطل کو مقدم کرتے ہیں ۔
آیت الله صدیقی نے بیان کیا : پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلمان فارسی سے آٹھ سفارش کی تھی اس میں سے ایک یہ تھا کہ ہمیشہ حق کہنا چاہے وہ تمہارے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو ؛ حق مطلق خداوند عالم ہے اور ہر حق کا رابطہ اس حق سے ہے اور آج کل انسانی حقوق کا دعوا کرنے والے لوگوں کو بشریت کی پہچان ہی نہیں ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : یہ لوگ اصلا حق کو قبول نہیں کرتے ہین اور ان کی تمام باتیں دھوکہ دینے کے لئے ہے ؛ ایسی باتیں صرف عمومی افکار کو فریب دینے اور کمزور قوم کو تباہ کرنے کے لئے کرتے ہیں ؛ وہ لوگ نہ تو انسان اور نہ ہیں انسانی حقوق کی شناخت رکھتے ہیں کہ اس پر عمل کر پائے نگے ۔
حوزہ علمیہ میں درس اخلاق کے استاد نے بیان کیا : خداوند کریم حق ہے اور صرف وہ ہے جو اپنے بندے کے لئے حق معین کرتا ہے ؛ فرد و معاشرے کا حقوق خداوند عالم کی طرف سے معین ہوا ہے اور ہم لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے جو حق معین ہوئے ہیں اس پر عمل کریں ۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : دین حقوق کے حدود کے معنی میں ہے ؛ انسانی نظم و عالم کا عمومی نظم دین خداوند عالم کے ذریعہ حقیقت کا رنگ اختیار کرتی ہے ؛ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے صحیفہ حقوق میں پچاس حق کی تعریف کی ہے کہ اس میں انسان کے بدن کے اعضا کے حقوق بیان کئے ہیں اور حقیقت میں بدن کے اعضا کے لئے بھی حقوق کے قائل ہیں ۔ /۹۸۹/ف۹۷۰/