دین مبین اسلام کے مشہور و معروف مبلغ حجت الاسلام سید علی ہاشم عابدی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں ایام فاطمیہ کی مناسبت سے تعزیت پیش کی اور حدیث رسول (ص) بضعۃ منی کی مصداق کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : شریکہ رسالت، محافظہ ولایت، مادر امامت، صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت و شھادت تاریخ انسانیت کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس پہ آج بھی چند ایسے سوالات ہیں جنکا جواب نہ مل سکا۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں اس دل خراش واقعہ کے سلسلہ میں پیش آنے والے چند اہم سوال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ کی اکلوتی یادگار بیٹی کیوں اپنے ہی شھر مدینہ منورہ میں اجنبی ہو گئیں؟ ۱۸ برس کے سن میں کیوں عصا بردار ہو گئیں؟ آخر وہ کون سی مصیبت تھی کہ آپ نے مرثیہ پڑھا "صبت علی مصائب لو انھا۔ صبت علی الایام صرنا لیالیا"؟ آخر ایسا کون سا جرم تھا کہ اس بچے کو بھی شھید کر دیا جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں تھا بلکہ بطن مادر میں تھا؟ آخر کیوں بنت رسول (س) کو شب کے سناٹے میں دفن کیا گیا؟ کیوں آج تک قبر سیدہ س۔ پوشیدہ اور ایک راز الہی ہے؟
دین مبین اسلام کے معروف مبلغ نے معصومہ عالم کی فضیلت کے سلسلہ میں متعدد احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : مسلمانوں نے خود اپنے کانوں سے متعدد بار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سنا تھا۔ "فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی" یا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نزول آیت تطھیر کے بعد اللہ کے نبی (ص) چھ ماہ تک مسلسل در زہرا (س) پہ آ کے فرماتے "السلام علیکم یا اھل بیت النبوہ" ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : اسی طرح مباھلہ میں خواتین میں صرف حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کو لے گئے اور بتا دیا کہ اگر کوئی اللہ و رسول کے نزدیک سب سے سچی عورت ہے تو وہ یھی ہیں، اور جب آیت نازل ہوئی کہ " ائے صاحبان ایمان نبی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ھو" تو اس وقت خلیفہ اول نے بیت زہرا سلام اللہ علیھا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ یا رسول اللہ نبی کے گھروں میں یہ گھر بھی شامل ہے تو مصداق "وما ینطق" نے فرمایا بلکہ یہ گھر ان گھروں سے افضل ہے۔ یعنی حکم خدا کے مطابق بیت فاطمہ سلام اللہ علیہا میں بدرجہ اولی بغیر اجازت داخلہ ممنوع ہے۔
ہاشم عابدی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کو نذر آتش کرنے والوں کو منکر ولایت و رسالت جانا ہے اور بیان کیا : بیوت انبیاء سے افضل بیت پہ آگ و لکڑی سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی کو وہ زخم لگا کہ بطن مبارک میں محسن مظلوم کی شھادت ہوگئی اور یہی زخم آپ کی بھی شھادت کا سبب بن گیا۔
انہوں نے بی بی دو عالم کو دئے گئے زخم کی شدت کو بیا کرتے ہوئے کہا : اسی زخم نے ۱۸ برس میں ہی بنت رسول کو عصابردار بنا دیا۔ یہی ایسی مصیبت تھی کہ بی بی نے مرثیہ پڑھا "صبت علی مصائب لو انھا۔ صبت علی الایام صرنا لیالیا"۔ بقول علامہ امینی رہ آج بھی مدینہ کے در و دیوار سے "صبت علی مصائب ۔۔۔۔۔" کی صدا محسوس ہوتی۔
ھندوستان کے معروف مبلغ دین منین اسلام نے بنت رسول اکرم ص کی شہادت پر سوال کرتے ہوئے کہا : لیکن آخر کیوں فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) کو شہید کیا؟۔ انہوں نے تو صرف رسول کے حکم کی تعمیل میں ولایت کی حفاظت کی تھی جو ہر مسلمان پر واجب ہے ۔
انہوں نے اسلام میں انسان کا احترام اور اس کے نیک کام کی تعریف و اکرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : رسول اکرم ص نے حاتم طائی کی مشرکہ بیٹی کو اسکے باپ کی کرامت و سخاوت کے سبب نہ صرف معاف فرمایا بلکہ انعام و اکرام سے نوازا تو کیوں رحمت للعالمین کی مومنہ و معصومہ بیٹی کو شہید کیا؟ انعام و اکرام تو دور بنی اکرم ص کی صدیقہ بیٹی کے باغ فدک کو ان کی طرف سے دلائل دینے کے باوجود چھین لیا گیا ؟۔
حجت الاسلام سید علی ہاشم عابدی نے کہا : اگر مسلمان اپنے رسول اللہ ص کی بیٹی جس کے طفیل میں کائینات کو خلق کیا گیا ان پر ظلم نہ کرتا تو آج مسلمان پر بھی کوئی ظلم نہیں کر سکتا تھا مگر مسلمانوں نے اپنے ہاتھ سے خود پر ظلم کیا اور الطاف الہی کا راستہ بند کر دیا ۔/۹۸۹/ف۹۱۴/