رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امام علی نقی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے ھندوستان و پاکستان کے علاوہ تمام شیعی ممالک خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران، عراق، لبنان، شام میں مجالس عزا و عزاداری منعقد کی گئی ۔
قالَ(علیه السلام): العُقُوقُ یُعَقِّب القِلَّة ویُؤدِّی إِلی الذِّلَّة. [مسند الامام الهادی ، ص 303]
حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ہیں ماں و باپ کی ناراضگی انسان سے توفیق و صلاحیت چھین لیتی ہے اور اس کو ذلت کی طرف لے جاتی ہے ۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء ،غیبت قائم آل محمدکے زمانے میں محافظ دین اوررہبرعلم ویقین ہوں گے ان کی مثال شیعوں کے لیے بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی کشتی کے لیے ناخدا کی ہوتی ہے وہ ہمارے ضعیفوں کے دلوں کوتسلی دیں گے وہ افضل ناس اور قائد ملت ہوں گے ۔(دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۳۷) ۔
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ ایک دن متوکل نے بر سر دربار حضرت امام علی نقی علیہ اسلام کو قتل کر دینے کا فیصلہ کر کے آپ کو دربار میں طلب کیا آپ سواری پر تشریف لائے عبدالرحمن مصری کا بیان ہے کہ میں سامرا گیا ہوا تھا اورمتوکل کے دربار کا یہ حال سنا کہ ایک علوی کے قتل کا حکم دیا گیا ہے تو میں دروازے پر اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ دیکھوں وہ کون شخص ہے جس کے قتل کے انتظامات ہو رہا ہے اتنے میں دیکھا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام تشریف لارہے ہیں مجھے کسی نے بتایا کہ اسی علوی کے قتل کا بندوبست ہوا ہے ۔
میری نظرجونہی ان کے چہرہ پرپڑی میرے دل میں ان کی محبت سرایت کرگئی اور میں دعا کرنے لگا خدایا متوکل کے شر سے اس شریف علوی کوبچانا میں دل میں دعاکرہی رہا تھا کہ آپ نزدیک آ پہنچے اور مجھ سے بلا جانے پہچانے فرمایا کہ اے عبدالرحمن تمہاری دعا قبول ہو گئی ہے اور میں انشاء اللہ محفوظ رہوں گا چنانچہ دربارمیں آپ پر کوئی ہاتھ نہ اٹھا سکا اورآپ محفوظ رہے پھر آپ نے مجھے دعا دی اور میں مالامال اور صاحب اولاد ہو گیا عبدالرحمن کہتا ہے کہ میں اسی وقت آپ کی امامت کا قائل ہو کرشیعہ ہوگیا (کشف الغمہ ص ۱۲۳ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۵)۔
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت
متوکل کے بعد اس کا بیٹا مستنصر پھر مستعین پھر ۲۵۲ ہجری میں معتزباللہ خلیفہ ہوا معتز ابن متوکل نے بھی اپنے باپ کی سنت کونہیں چھوڑا اور حضرت کے ساتھ سختی ہی کرتا رہا یہاں تک کہ اسی نے آپ کو زہر دے کر شہید کردیا ۔ آپ کی شہادت بتاریخ ۳/ رجب ۲۵۴ ہجری یوم دوشنبہ واقع ہوئی۔
علامہ ابن جوزی تذکرة خواص الامة میں لکھتے ہیں کہ آپ معتزباللہ کے زمانہ خلافت میں شہید کئے گئے ہیں اور آپ کی شہادت زہر سے واقع ہوئی ہے، علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کو زہرسے شہید کیا گیا ہے (انوارالابصارص ۱۵۰) ۔
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ آپ زہر سے شہید ہوئے ہیں ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۴۸ میں ہے کہ آپ نے انتقال سے قبل امام حسن عسکری علیہ السلام کومواریث انبیاء وغیرہ سپرد فرمائے تھے وفات کے بعد جب امام حسن عسکری علیہ السلام نے گریبان چاک کیا تو لوگ معترض ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ سنت انبیاء ہے حضرت موسی نے وفات حضرت ہارون پر اپنا گریبان پھاڑا تھا (دمعہ ساکبہ ص ۱۴۸ ، جلاء العیون ص ۲۹۴) ۔
آپ پر امام حسن عسکری نے نماز پڑھی اور آپ سامرا ہی میں دفن کئے گئے ، علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت انتہائی بیکسی کی حالت میں ہوئی شہادت کے وقت آپ کے پاس کوئی بھی نہ تھا۔(جلاء العیون ص ۲۹۲)
آپ کے یوم شہادت کی مخصوصی میں شرکت کے لئے عراق کے دیگر شہروں اور دنیا بھر سے دسیوں لاکھ زائرین سامرا پہنچے ہیں ۔
اس موقع پر سامرا میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں - کربلائے معلی، نجف اشرف اور کاظمین میں بھی امام علی نقی علیہ السلام کی تاریخ شہادت کی مناسبت سے مجالس غم اور نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری ہے-
اسی مناسبت سے ایران و دوسرے ممالک میں شیعوں و اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کی طرف سے سبھی چھوٹے بڑے شہروں کی مساجد اور امامبارگاہوں میں مجالس عزا منعقد ہو رہی ہیں اور علمائے کرام امام علی نقی علیہ السلام کے فضائل و مصائب بیان کرکے مومنین کو مثاب کر رہے ہیں۔
سامرا میں اس وقت دسیوں لاکھ عراقی اور غیر عراقی زائرین روضے کے اندر اور اطراف کی سڑکوں پر عزاداری میں مصروف ہیں ۔