رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے مقابلے میں ایران کے استقامت کے درمیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ کسی اچھے معاہدے کے حصول کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران کے خان کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ میرے لیے ایران کے ساتھ مذاکرات روز بروز سخت سے سخت تر ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ ایران کا ساتھ کسی معاہدے کا حصول آسان تر بھی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایران کے حوالے سے اپنی حکومت کے پروگرام کے بارے میں کہا کہ ہم ایران کے حوالے سے پیچھے ہٹ کر صبر کریں گے اور دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے ذریعے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی، پابندیوں کی واپسی اور حتی جنگ کی دھمکیاں بھی ایران کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے دو ٹوک اور اصولی موقف سے پسپائی پر مجبور نہیں کر سکیں۔
قرائن و شوائد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اس یقین کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی کہ ایران جھک جائے گا اور ایٹمی معاہدے کو من پسند شرائط میں تبدیل کرنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
سیاسی اور ایٹمی مسائل سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اور دنیا کے چھے ملکوں کے درمیان دس سال کے جامع مذاکرات کے نتیجے میں تیار ہونے والے ایک سو بیس صفحات پر مشتمل جامع ایٹمی معاہدہ اب تک کے تمام ایٹمی معاہدوں کے مقابلے میں انتہائی مکمل اور جامع دستاویز ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف کا کہنا ہے کہ ہمیں ایران کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے سفارت کاری کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم ایٹمی معاہدے سے کیوں نکلے ہیں، حالانکہ ایران اس پر عمل کر رہا ہے۔
واشنگٹن میں برطرف کیے جانے والے برطانوی سفیر کم ڈیروکھ نے ایسے ہی سوالات کے جواب میں لندن کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے پیشرو باراک اوباما کی ضد میں ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہوئے ہیں۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کو اس وقت پوری امید تھی کہ کم ترین وقت میں ایران کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیا جائے گا، حالانکہ ایران اس سے پہلے متعدد بار یہ اعلان کر چکا تھا کہ وہ ایٹمی معاہدے کی پابندی کرتا رہے گا اور ٹرمپ انتظامیہ جیسے ناقابل بھروسہ فریق کے ساتھ ہرگز مذاکرات نہیں کرے گا۔
اس صورتحال نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشکلات میں پھنسا دیا ہے، ایک جانب امریکی صدر ٹرمپ اپنی سیاسی اور انتخابی ساکھ کو بچانے کی خاطر ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے میں واپس نہیں آنا چاہتے تو دوسری جانب ایران کی استقامت اور مزاحمت نے، غیر منصفانہ ماحول میں کسی بھی قسم کے نئے معاہدے کے حصول کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اسی لیے ٹرمپ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ" ہم ایران کے حوالے سے پیچھے ہٹ کر صبر کریں گے، اور دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔"
بہرحال اس وقت امریکہ کے اندار اور واشنکٹن کے علاقائی اور بین الاقوامی اتحادیوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مقابلے میں ایران کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی اور اسی بات نے ایران کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تضاد بیانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔