رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ سید احمد علم الھدی نے حرم امام رضا (ع) کے رواق امام خمینی (رح) میں عشرہ محرم کی دو تاریخ کی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سید الشہداء (ع) سے بہترین عقیدت و محبت کا اظہار ان کی حقیقی معرفت ہے اور وہ اس طرح کہ امام حسین علیہ السلام کی حقیقی معرفت کے ساتھ ان کی عزاداری کریں
انھوں نے کہا کہ مجالس عزا کا ہدف یہ نہیں ہے کہ صرف تاریخ اہلبیت (ع)بیان کی جائے یا ائمۂ ہدایت (ع) پرظالموں کے ظلم و ستم کا تذکرہ ہو یا ان کی مصیبت پر گریہ ہو، صرف یہ نہیں ہے، بلکہ سیاسی سماجی اور ثقافتی پہلوؤں میں ہمیں ان کی سیرت اور ان کی رفتار و گفتار اور ان کے عملی اقدامات پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں
انھوں نے کہا کہ ایک لحاظ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انقلاب دو قسم کے ہوتے ہیں؛ ان میں سے بعض دھماکے کی مانند ہوتے ہیں۔ اس قسم کے انقلابات ایسے وقت برپا ہوتے ہیں جب عوام کے خلاف جرائم اور ظلم و ستم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اور لوگ آخر کار اس زیادتی کے خلاف اچانک اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔
مشہد کے امام جمعہ نے کہا: دھماکہ خیز انقلاب کے مقابلے میں ایک انقلاب ارادوں کا انقلاب ہے جسے لوگ ایک خاص سیاسی، اقتصادی، فکری اور معاشرتی نظریے کے تحت لاتے ہیں ۔ ایسے انقلاب کا ملاک ومعیار حکومت یا سیاسی نظام کی تبدیلی نہيں ہوتا ، بلکہ اصل مقصد اقدار اور اعلی امنگوں کو معاشرے میں حکمفرما بنانا ہوتا ہے
آيت اللہ علم الھدی نے کہا: سید الشہداء (ع) کے انقلاب کی ماہیت اسی ارادے والے انقلاب کی تھی۔ اور ایران کے اسلامی انقلاب اور کربلا کے انقلاب میں قدر مشترک یہی ارادے والا انقلاب ہے- انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے ایران کے اسلامی انقلاب میں اعلی اسلامی افکار و امنگوں کو مستحکم بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا
آیت اللہ علم الھدی نے مزید کہاکہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے سرکار سید الشہداء (ع) کی تاسی کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے دوران یہ کوشش کی کہ دینی اقدار کو اپنے معاشرے بلکہ پوری دنیا میں زندہ کردیں تاکہ مھدی موعود (عج) کے جلد ظہور کے لئے زمین ہموار ہوسکے
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ انقلاب سید الشہداء میں تین اہم عناصر کا وجود تھا، مدافعانہ، امن پسندانہ اور جہادی ۔ ان میں جہادی عنصر سب سے اہم تھا۔
مشہد کے امام جمعہ آیت اللہ علم الھدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امام حسین (ع) نے سب سے مدافعانہ طریقے کو اپناتے ہوئے یزید کے خلاف قیام کیا کیونکہ وہ فاسق و فاجر ، مسند حکومت اسلامی پر بیٹھا ہوا یہ کوشش کررہا تھا کہ دین رسول اللہ (ص) کو غلط راہوں پر لگا کے آخر میں اسے ٹھکانے لگا دے۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے اور خاص طور پر کوفے والوں نے امام حسین (ع) کو خط لکھا تھا اور آپ کی بیعت کا اظہار کیا تھا۔ لہذا حضرت اس خیال سے کوفے کی سمت چلے کہ بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ کیوں حضرت نے کوفیوں کی اس خواہش کو قبول نہيں کیا ۔ یہاں پر سید الشہداء کا یہ طریقہ کار، مصالحتی اقدام تھا جو ظاہر ہے کہ آپ کا اصلی اقدام نہ تھا۔
خراسان رضوی میں ولی فقیہ کے نمائندے نے کہا: اب حضرت کا جہادی عنصر وہی عاشورہ اور کربلا میں قیام کے فلسفے کا عنصر تھا یعنی دین خدا کی بقا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو رائج کرنا ۔
انھوں نے کہا کہ وہ برائي جس کو امام حسین (ع) مٹانا چاہتے تھے ، دراصل اعلی اقدار کے خلاف رجعت پسندی کی تحریک تھی۔ ملوکیت،ظلم، عیش عشرت ،دوسروں کے حق کی پامالی ، اسلامی اقدارمیں تحریف، بے دینی کی ترویج اور بیت المال میں تصرف وہ برائياں تھیں جو اس زمانے کے معاشرے میں رائج ہو چکی تھیں اور اسلامی اقدار کو نقصان پہنچا رہی تھیں ۔ اورحضرت سید الشہدا انھیں برائیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے