رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے یوم عاشور کے موقع پر اپنے پیغام میں کہاکہ کربلا ایک عظیم انقلابی تحریک اورایثارو قربانی کے لازوال جذبے کا نام ہے۔ حضرت اما م حسین علیہ السلام کی اپنے اہلبیت ؑ و اصحاب باوفا کے ہمراہ ناموس رسالت کی خاطر سرزمین کربلا پرعظیم قربانی ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔
واقعہ کربلا میں اس قدر ہدایت‘ رہنمائی اور جاذبیت ہے کہ وہ ہر دور کے ہر انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس واقعہ کے پس منظر میں نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد‘ آفاقی اصول اور پختہ نظریات شامل ہیں۔ آپ نے واقعہ کربلا سے قبل مدینہ سے مکہ اور مکہ سے حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرکے کربلا کے سفر کے دوران اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں واشگاف انداز سے اظہار کیا اوردنیا کی ان غلط فہمیوں کو دور کیا کہ آپ کسی اقتدا رو جاہ و حشم کے حصول‘ ذاتی مفادات کے مدنظر یا کسی خاص شخصی مقصد کے تحت عازم سفر ہوئے ہیں اور موت جیسی اٹل حقیقت کے رونما ہونے پر یقین کے باوجود بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے ہر قسم کی مالی‘ دنیاوی ‘ حکومتی اور ذاتی پیشکش کو ٹھکرایا اور صرف قرآن و سنت‘ شریعت محمدی‘ دینی احکام ‘ اوامر و نواہی اور اسلام کے نظام کے نفاذ کو ترجیح دی۔
61 ھ کے بعد روز عاشور امام حسین ؑ کے اسم گرامی کے ساتھ منسوب ہوگیا اس سے قبل عاشورہ کا لغوی اور لفظی مفہوم علمی حد تک تو عیاں تھا لیکن عاشورہ کی عملی شکل امام عالی مقام کے کردار سے سامنے آئی اور اس انداز سے اجاگر ہوئی کہ عاشورہ حریت کی ایک تعبیر بن گیا اور جب بھی عاشورہ کا ذکر ہوا تو انسان کے ذہن میں امام حسینؑ اور ان کی لازوال قربانی کا نقش اجاگر ہوا۔روز عاشور سے قبل شب عاشور بھی اپنے اندر ایک الگ تاریخ کی حامل ہے جب امام عالی مقام نے عاشورا کے حقائق سے اپنے ساتھیوں ، جانثاروں اور بنو ہاشم کو آگاہ کیا اور انہیں بتایا کہ عاشورا برپا ہونے کی عملی شکل کیا ہوگی؟ اور اس میں کس کس کو کیا کیا قربانی دینا پڑے گی؟
آپ نے جب اپنے اصحاب و انصارکو عاشورا کی حقیقت یعنی اٹل موت سے باخبر کیا تو ساتھ ساتھ انہیں اپنے راستے کے انتخاب کی آزادی بھی فراہم کی اور کسی قسم کا حکم یا جبر اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اختیار دیا کہ وہ عاشورا کے راستے کا انتخاب کریں یا کربلا سے چلے جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ شب عاشور جب چراغ گل کرایا گیا تو انسانوں کی تقسیم نہ ہوئی بلکہ ضمیروں کی شناخت ہوئی۔ کھوکھلے دعوﺅں کی بجائے نظریہ کی پختگی کا اندازہ ہوا اور چند لمحوں کی وابستگی دائمی نجات کی ضامن بن گئی۔
آپؑ نے جبر کے ساتھ لوگوں کو اپنے ساتھ وابستہ نہ رکھ کر رہتی دنیا کے لئے ہدایت و رہنمائی چھوڑی کہ کشتیاں جلا کر لوگوں کو جبری شہادت کی طرف مجبور کرنا اور ہے جبکہ چراغ بجھا کر لوگوں کو ابدی نجات عطا کرنا اور ہے۔ عاشورائے حسینی ہر دور میں پیروکاران حسین ؑ کو یاددلاتاہے کہ جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو پیروکاران حسین ؑ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عاشورا برپا کریں۔
امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا آج احکام اسلام کا مذاق نہیں اڑایا جارہا؟ کیا آج عدل وانصاف ناپید نہیں ہوتا جارہا؟ کیا آج انسانوں با لخصوص مسلمانوں کے انسانی، شہری، مذہبی اور بنیادی حقوق پامال نہیں کئے جارہے؟ کیا مظلوم فلسطینی اور کشمیری مسلمان جبر و استبداد کی چکی میں نہیں پس رہے ؟کیا آج ظلم ، تجاوز، عریانی و فحاشی اور بے عدلی کا دور دورہ نہیں ہوچکا؟ اگر ایسا ہے تو کیا ہمیں بھی سیرت حسین ؑ ابن علی ؑ پر عمل کرتے ہوئے عاشورا برپا کرنے کی ضرورت نہیں؟ آج کی 61 ھ سے مشابہ اس صورت حال کا انداز و ماحول نیا ہے۔
گویاآج بھی حسین ؑ ابن علی کی صدائیں گونج رہی ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارا ساتھ دے۔آئیے ہم حسین ؑ ابن علی ؑ کا ساتھ دیں اور ان کی صدا پر لبیک کہیں۔احکام خداوندی اور شریعت نبوی پر عمل پیرا ہو کر اپنے اچھے اور مضبوط کردار کے ذریعے ‘ کردار سیدہ زینب ؑ اور سیرت حضرت زین العابدین ؑ پر عمل کے ذریعے ‘مشن حسین ؑ اور اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے عملی جدو جہد کے ذریعے‘ دشمن کے عزائم اور مظالم سے اتحاد و اخوت اور وحدت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے ذریعے اور اس راستے میںاگر مشکلات پیش آئیں حتی کہ شہادت کی سعادت بھی نصیب ہو تو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھا جائے بلکہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک اور عاشورہ برپا کرنے کے لیے آمادہ رہا جائے یہی ہر دور کا پیغام عاشور ہے۔