رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید جواد نقوی نے لاہور میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے امریکہ پر لرزہ طاری کر دیا ہے، اس واقعہ سے ظالم حکمران پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس شہادت سے بیداری نے جنم لیا ہے اور عراق سمیت جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں، حتی کہ غیر مسلموں میں بھی ایک جذبہ بیدار ہوا ہے، جس کا دشمنوں کو اندازہ ہی نہیں تھا، وہ سمجھتے تھے شہادت سے مسلم دنیا خوفزدہ ہو جائے گی مگر اس شہادت نے تو امت کو زندہ تر کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا احساساتی پہلو بھی ہے اور جذباتی پہلو بھی، یہ شہید غیر معمولی اہمیت کے حامل تھے، اتنے لائق افراد بار بار نہیں پیدا ہوتے، یہ سرمایہ تھے، ان کا تعلق پوری دنیا سے تھا، ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پُر کرنا کسی اور کے بس میں نہیں، یہ توفیق صرف اسی شخصیت کا حاصل تھی۔
انہوں نے کہا کہ دوسرا پہلو اس واقعہ کے محرکات ہیں، کہ وہ کیا تھے کہ قاسم سلیمانی کو کیوں شہید کیا گیا، وہ اپنے ساتھیوں میں حاج قاسم کے نام سے جانے جاتے تھے جبکہ میڈیا اسے جنرل قاسم سلیمانی کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حاج سالار کیلئے استعمال ہوتا ہے، وہ سالار تھے، اسی لئے حاج کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہر باضمیر انسان اس شہادت سے دکھی ہے، بے ضمیر سے ایسی توقع نہیں، پاکستان میں بھی خلاف توقع ردعمل آیا، میڈیا عموماً ایسے معاملات میں خاموش رہتا ہے، مگر یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی میڈیا نے اپنے جذبات کا اظہار کیا، بعض میڈیا چینلز اور سیاستدانوں نے حق ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی اپنے اہداف اور مشن مکمل کرکے ہی شہید ہوئے ہیں اور آخری فضلیت بھی شہادت کی اپنے نام کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ عرصے سے آل سعود اور امریکہ نے سپیشل سکواڈ بنائے ہوئے تھے، دہشتگرد کمپنیاں بنائی ہوئی تھیں جن کو جنرل قاسم سلیمانی کا ہدف دیا گیا تھا، کہ انہیں شہید کرنا ہے، مگر انہیں مسلسل ناکامی مل رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ہدف سید حسن نصراللہ، حاجی قاسم اور کچھ اور شخصیات ان کا ہدف تھیں، اور ان کیلئے مختلف ممالک میں کمین گاہیں بنائی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو ناکامی کے بعد خود میدان میں آنا پڑا اور براہ راست حملہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس شہادت کی تلافی بھی ایران نے کر دی ہے، 75 سال میں پہلی دفعہ امریکی چھاونی پر کسی ملک نے حملہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ و روس دشمن رہے ہیں مگر روس نے کبھی براہ راست امریکہ پر حملہ نہیں کیا، اسی طرح کوریا بھی امریکہ کا دشمن رہا ہے مگر براہ راست اس نے بھی حملہ نہیں کیا، یہ اعزاز بھی ایران کو حاصل ہے کہ اس نے براہ راست امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ ایران کا نشانہ بننے والی امریکی چھاونی جدید ترین تھی، مگر امریکہ ہونیوالے نقصان کو چھپا رہا ہے، مگر اب آہستہ آہستہ چیزیں سامنے آ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو علامتی حملہ تھا، ابھی اصل حملہ ہونا باقی ہے، 22 میزائل ایران نے اپنے ملک سے ان کی چھاونی پر داغے ہیں، اور دنیا کو بتایا کہ یہ 22 میزائل جنگ کا اعلان ہے، جو سرد جنگ ہو رہی تھی، اس کو اب کھلی جنگ کیلئے سامنے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب دونوں فریق آمنے سامنے ہیں اور سپر پاور کے زوال کا عمل اب شروع ہو گیا ہے، یہ حاج قاسم کے خون کے تاثیر ہے۔
علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ حاج قاسم نڈر اور بے خوف تھے، ڈر نام کی کوئی چیز ان میں تھی ہی نہیں، وہ خطرناک ترین سرحدوں پر پہنچ جاتے تھے، ان کی بہادری کی کوئی مثال قائم ہی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جہاں چاہتے تھے پہنچ جاتے تھے، وہ شجاعت انسان تھے اور باتدبیر انسان تھے، وہ پریکٹیکل آدمی تھے، وہ ناممکن کو ممکن بنا دیتے تھے، وہ سخت انقلابی تھے، جو ایک انچ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے اور میدان جنگ میں بھی سخت پابند شریعت تھے۔
انہوں نے کہا کہ حاج قاسم نے کاغذی شیروں کا بھانڈا پھوڑ دیا، ان کو رسوا کر کے رکھ دیا، اور ان کے نصیب میں تاریخی ذلت لکھ دی۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ حاج قاسم سلیمانی وہ شخصیت تھی جس کی اسلام کو اور دنیائے اسلام اور آج کے زمانے کو ضرورت تھی، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ زمانے کو جس کی ضرورت ہو، وہ پیدا ہو جائے، تو قاسم سلیمانی ایسا ہی تھا جس کی زمانے کو ضروت تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دین صدیوں سے مچل رہا تھا کہ اس کے اندر مرد پیدا ہو، حُر پیدا ہو، ایک مدیر مدبر پیدا ہو، ایک جنگجو کمانڈر پیدا ہو، ایک طالوت پیدا ہو، اور وہ قاسم سلیمانی تھے۔
انہوں نے کہا کہ حاج قاسم ایک مزدور تھا، باپ چرواہا تھا، مگر یہی نوجوان جب مکتب ولایت میں آتا ہے تو اس کے اندر چنگاری تھی جسے مربی نے بھڑکا دیا، جنگ شروع ہوئی اور جنگ میں یہ کمانڈر بن گیا، اور پھر اسے اصل میدان دیدیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فوج میں بہت سے کمانڈر تھے، مگر رہبر معظم نے انہیں منتخب کیا، اسے بھی ایک میدان چاہیئے تھا، جو اسے مل گیا، اسے میدان جنگ کیلئے پورا خطہ مل گیا۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اسے 25 سے 26 ممالک ملے تھے جہاں اس نے اپنا میدان سجایا تھا، دین ایسے ہی لوگوں کا محتاج ہوتا ہے، یہ دین کی ضرورت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم کے پاس بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے، یہ بہادر لوگ نہ ہوں گے انقلاب کامیاب نہیں ہو سکتے، شروع سے ہی مکتب اسلام کی فریاد تھی، جب سے اسرائیل وجود میں آیا، جب سے کشمیر قبضے میں گیا، جب سے عالم اسلام سسک رہا تھا، تو اللہ نے ایک سالار مبعوس کر دیا اور یہی حاج قاسم سلیمانی تھے۔
علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ہر مسلمان آج حاج قاسم کی شہادت پر فخر کر رہا ہے، سیاستدانوں نے قوم کو صرف ذلت دی، یہ سیاستدان ذلت کے کمانڈر ہیں جو اپنے ملکوں کو رسوا کرتے ہیں، حاج قاسم نے دین کی جنگ لڑی ہے، ایران کی جنگ نہیں لڑی، بلکہ حاج قاسم نے عربوں کی جنگ لڑی، پاکستان کی جنگ لڑی، ملایشیاء کے وزیراعظم کا خطاب سنیں، وہ یہی کہنا چاہ رہا ہے کہ حاجی قاسم نے ہماری جنگ لڑی ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اسے شہید بھی نہیں کہہ سکے، کیونکہ امریکہ نے مارا ہے، سعودی عرب خوش ہے، اس لئے اس سے بڑی ذلت ان حکمرانوں کیلئے کیا ہوگی کہ یہ سعودی عرب کے اجازت کے بغیر کسی کانفرنس میں نہیں جا سکتے، ایک نڈر انسان کو شہید کہتے ہوئے بھی انہیں جھجھک ہو رہی ہے کہ کہیں سعودیہ ناراض نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ حاج قاسم کربلا جیسے مکتب سے ہی پیدا ہوتا، امام حسین علیہ السلام کے راستے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کربلا کا سبق جو امام خمینی نے پڑھایا ہے، ہمیں کربلا کا یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بس رونا ہے۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ حاج قاسم کو فلسطینیوں نے شہید قدس قرار دیا ہے، لبنانی کہہ رہے ہیں یہ شہید لبنان ہے، عراقی کہہ رہے ہیں یہ شہید عراق ہے، یمنی کہہ رہے ہیں یہ شہید یمن ہے، لیکن پاکستان نے کوئی آواز نہیں اٹھی، پاکستان سے خطرے ٹالنے والا قاسم سلیمانی تھا، وہ جرنیل نہیں جو بن سلمان کے بوٹ چاٹ رہا ہے، داعش کا خطرہ پاکستان سے حاج قاسم نے ٹالا، وہ پاکستان کا بھی محسن تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں چاہیئے تھا کہ کہتے یہ شہید ہمارا ہے، مگر ادھر سے خاموشی رہی، پاکستان کا نظام بانجھ ہے، اس کی فکری زمین زرخیز نہیں، یہاں اچھا بندہ بھی ناکارہ ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو دنیا نے نوبل انعام دیا، مگر ہم نے مرزئی کہہ کر مسترد کر دیا، وہ لاہور کے کالج میں آئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں لیبارٹری کا انچارج بنا دیا جائے، مگر پرنسپل نے کہا کہ لیبارٹری کا انچارج تو موجود ہے، فٹبال ٹیم کا کوچ نہیں، آپ کوچ بن جائیں اور انہیں کوچ بنا دیا گیا۔ دو سال وہ کوچنگ کرتا رہا آخر کار ملک چھوڑ گیا اور بیرون ملک جا کر کام شروع کر دیا جہاں وہ عالمی سائنسدان بن کر ابھرا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ ہم پرفیکٹ بندے کو آگے آنے نہیں دیتے اور اگر آ جائے تو اسے آگے بڑھنے نہیں دیتے اور ناکام کرکے گھر بھیج دیتے ہیں۔