رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم کے فاضل عالم دین اور حوزہ علمیہ ھندوستان کے مشہور استاد مہلک مرض کی تاب نہ لا کر اس دار فانی سے کوج فرما گئے ۔
اس سلسلہ میں کی گئی گفتگو میں ان کے قریبی دوست حجت الاسلام علی عباس نے کہا کہ موصوف حوزہ علمیہ قم میں تحصیل علم حاصل کی اور اسی مقدس شہر میں بحث و مباحثہ میں بھی کافی شہرت حاصل کی یہاں تک کہ حرم مقدس میں طلاب کے درمیان تدریس بھی کیا کرتے تھے ۔
یہاں تک کہ طلاب کے بڑے سے حلقہ میں استاد کے نام سے مشہور ہوئے اور وہ اپنی ذمہ داری کا حساس کرتے ہوئے ھندوستان کے طلاب کی تعلیم و تربیت کے لئے قم سے تشریف لے گئے اور ھندوستان کے مشہور درسگاہ مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں تعلیم و تربیت میں مشغول ہو گئے ۔
مرحوم کے دوست ان سے کافی محبت کرتے تھے کیوں کہ وہ ایک با اخلاق و ایک دوسرے سے کافی محبت سے پیش آنے والوں میں سے تھے ۔
وہ ایک حقیقی مربی تھے جنہوں نے اپنے حکیمانہ تدبیر سے جہاں طالب علموں کی تعلیمی مشکلات حل کرتے تھے ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھتے تھے ۔
آپ کی خوش اخلاقی ہر لوگوں کے لئے عیاں تھی آپ کی جس سے ملاقات ہوتی تھی وہ ہمیشہ آپ کا شیدائی ہو جایا کرتا تھا، آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور مسکراتے ہوئے اس دنیا سے کوچ فرما گئے ۔
خداوند عالم مرحوم استاد کی مغفرت فرمائے اور آپ کو جوار معصومین (ع) عنایت فرمائے و پسمندگاں خصوصا اہل خانہ کو صبر جمیل عنایت فرمائے ۔
قابل ذکر ہے مولانا مرحوم کو جوانی ہی میں کینسر جیسے موذی مرض نے گرفتار کر لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں سے تشنگان علم کو زیادہ عرصہ تک سیراب نہ ہونے دیا ۔ آپ اس عہد کے زحمت کش اساتید میں شمار کئے جانے والے افراد میں تھے ۔