تحریر : سیدہ معراج فاطمہ حسینی
قتل ایک عربی لفظ ہے جس کا اردو اور فارسی دونوں ہی میں استعمال ہے ، اس کے معنی موت ، حیات کا خاتمہ یا نابودی ہے ، راغب اصفھانی مفردات قران میں تحریر فرماتے ہیں، القتل: ازالۃ الروح عن الجسد کالموت ؛ روح کا جسم سے نکلنا جیسے کہ موت ۔ و قال اللہ تعالی فی القران الکریم افان مات او قتل ۔ سورہ ال عمران ایت ۱۴۴ ۔ قتل کبھی فیزیکلی، جسمانی یا مرڈر کہلاتا ہے ۔
مگر کبھی قتل فیزیکلی نہیں بلکہ روحانی اور شخصیتی ہوتا ہے جہاں انسان کے جسم میں روح تو رہتی ہے ، انسان چلتا پھرتا ہے ، رواں دواں رہتا ہے مگر شخصیت کشی کی وجہ سے معاشرہ میں اسے بے حیثیت بنا دیا جاتا ہے ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا ۱۱ محرم سن ۶۰ ھجری قمری کو زمین کربلا پر حضرت امام حسین علیہ السلام کے ٹکڑے ٹکڑے بدن کے کنارے کھڑے ہوکر فرماتی ہیں : یا مُحَمَّداه! صَلّی عَلَیکَ مَلیکُ السَّماءِ هذا حُسَینٌ مُرَمَّلٌ بِالدِّماءِ مُنْقَطَعُ الاعْضاءِ وَ بَناتُکَ سَبایا ۔۔۔۔۔ فریاد اے محمد صلى اللَّه علیه و آله و سلم اپ پر اسمان کے ملائکہ نے درود بھیجا ، یہ حسین ہیں جو اپنے خون میں ڈوبے ہیں ، ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہیں اور ان کے اہل حرم اسیر ہیں ۔۔۔۔ مرے بابا قربان اس دوشنبہ (سموار) پر یعنی سقیفہ کے دن کہ ان کے خیمہ کو غارت کیا گیا ۔( اللهوف على قتلى الطفوف، ص 133 )
حضرت زینب سلام اللہ علیھا اس بیان میں جس بات اور جس دن کا تذکرہ فرمارہی ہیں اس دن کوئی قتل انجام نہیں پایا ، درحقیت بی بی کسی فیزیکلی اور جسمانی قتل کی جانب اشارہ نہیں کررہی ہیں بلکہ روحانی قتل اور شخصیت کشی کی جانب اشارہ ہے کہ اس دن کچھ لوگوں نے ال محمد کے خلاف قیام کرکے اور امام علی علیہ السلام سے ان کا حق چھین کر نیز ۲۵ سال تک معاشرہ میں بے اثر بناکر حضرت کی شخصیت کشی اور اپ کا روحانی قتل کیا ۔
رسول اسلام نے امام علی کو شھادت کی خبردی
محمد بن علي ابن بابويه معروف بہ شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کتاب عیون اخبار الرضا ج(۱) ص ۲۹۷ پر تحریر فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں کہ جس دن پیغمبر اسلام(ص) نے ماہ مبارک رمضان کے سلسلہ میں اپنا مشھور و معروف خطبہ ارشاد فرمایا میں نے اٹھ کر انحضرت سے دریافت کیا کہ اس ماہ میں سب سے بہترین عمل کیا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ گناہوں سے دور رہنا ، اس کے بعد پیغمر اسلام کی انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور مجھے بتایا کہ تم اس ماہ میں شھید کئے جاوگے ۔
حضرت علی علیہ السلام تقریبا ۳۰ سال پہلے پیغمبر اسلام کی زبانی سن چکے تھے کہ وہ ماہ مبارک میں رمضان میں شھید کئے جائیں گے ۔
سن ۴۰ ھجری کے رمضان المبارک کو امام کی باتوں سے صاف ظاھر ہورہا تھا کہ انہیں علم ہے کہ وہ اس مہینہ میں شھید کئے جائیں گے ، حضرت نے فرمایا کہ میں امسال تمھارے ساتھ نہ ہوں گا ۔ جب کسی نے اپ کی خدمت میں عرض کی کہ افطار کے وقت اتنی کم غذا کیوں تناول فرماتے ہیں تو حضرت نے فرمایا کہ چاہتا ہوں کہ خالی پیٹ خدا سے ملاقات کروں ۔
شیخ مفید کتاب الارشاد ص ۸ پر تحریر فرماتے ہیں سن ۴۰ ھجری کی ۱۹ ویں رمضان المبارک کو حضرت بلکل نہیں سوئے اور بار بار فرماتے رہے کہ خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا اور نہ مجھ سے کبھی جھوٹ بولا گیا ، وعدہ کی رات اج کی رات ہے ۔
امام کے قاتلین :
جنگ صفین میں شکست اور ابوموسی اشعری کو عمر عاص کے ہاتھوں دھوکہ کھانے کے بعد جنگ نہروان اور پھر خوارج وجود میں آئے ، خوارج کی تین بزرگ افراد کہ جنہوں نے حضرت على (علیهالسلام) کی تکفیر کی اور خونخواہی کی غرض سے تین حکمرانوں کو قتل کرنے کا یہ فیصلہ کیا ۔ ان میں سے بَرك بن عبدالله معاویہ کے قتل کے لئے شام روانہ ہوا، عمر بن بكر نے عمرو بن عاص کو مدینہ میں قتل کرنے کی ذمہ داری لی اور تیسرا عبدالرحمن بن ملجم مرادى، امیرالمؤمنین على(علیهالسلام) کے قتل لئے کوفہ پہونچا ۔
مورخین تحریر کرتے ہیں کہ ابن ملجم کی ایک خارجی کے مکان میں قطامہ شِجنه بن عدی سے ملاقات ہوئی کہ جس کے بھائی اور باپ جنگ نہروان میں مارے گئے تھے ، قطامہ بہت ہی حسین اور جمیل عورت تھی ، ابن ملجم نے اس سے محبت کا اظھار کیا اور شادی کی خواہش ظاھر کی ، قطامہ نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے کہا کہ میں شادی کے لئے راضی ہوں مگر میرا مہر تین ہزار درھم ، ایک غلام اور علىّ ابن ابى طالب کا قتل ہے ۔
ابن ملجم نے امتحانا قطامہ سے کہا کہ پہلی دو شرطیں قبول ہیں مگر مجھے علی کے قتل معاف کردے ۔
قطامہ نے جواب دیا کہ تیسری شرط یعنی علی کے قتل کی شرط سب سے اہم ہے اگر تم اپنی مراد چاہتے ہو تو اس کام کو ضرور انجام دو ۔ تو ابن ملجم نے جواب میں کہا کہ میں کوفہ نہیں ایا مگر اسی غرض سے ، قطامہ کے مطالبہ نے ابن ملجم کے ارادہ کو مزید پختہ کردیا تھا ۔
اخر وہ رات آہی گئی کہ جس کی رسول اسلام(ص) نے پیش گوئی تھی، ابن ملجم کی تلوار کا زخم بڑا کاری اور گہرا تھا ، امام گھر لائے گئے حکیم نے علاج کرنے کوشش تو کی مگر زہر نے اپنا اثر دیکھا اور چہرے کا رنگ زرد پڑنے لگا تو جراح نے مولا سے کہا کہ اپ وصیتیں فرمادیجئے ۔
امام علی کی وصیت
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا وَقُوْلَا بِالْحَقِّ وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ لَا تَتْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ ۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”اِیَاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
ترجمہ:
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔
دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہے آپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہےاور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔
اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔
دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
خداوند عالم ہم سب کو مولا کی وصیتوں پر عمل کرنے کی توفیق عنایت کرے ۔ آمین /۹۸۸/ن