رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنی ھفتہ وار درس اخلاق کی نشست میں کہ جو علوم وحیانی عالمی سنٹر اسراء میں کثیر تعداد میں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ قم کی شرکت میں منعقد ہوئی ، ولادت امام محمد تقی علیہ السلام کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے ماه مبارک رجب کے فضائل بیان کئے اور کہا: رجب کا با برکت مہینہ ، ماہ ولایت ہے کہ جو ماہ رسالت کا مقدمہ اور دونوں مہینے شھر اللہ کا مقدمہ ہیں ۔
انہوں نے ماہ مبارک رمضان کے حوالے سے رسول اسلام(ص) کے معروف خطبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ حضرت نے فرمایا «قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْكُمْ شَهْرُ اللَّه» کہا: رسالت ، دائرہ توحید اور وحدانیت میں وارد ہونے کا مقدمہ ہے ، اور ولایت ، رسالت کے قلعے میں داخل ہونے کا درواز ہے ، لہذا اگر مرسل آعظم(ص) نے فرمایا کہ «أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا» اس مطلب یہ ہے کہ ماہ رجب کہ جو حضرت اميرالمومنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام سے منسوب ہے یہ ماہ ، ماہ رسالت میں وارد ہونے والا مقدمہ ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے کہا: بزرگان اور عرفاء ان تینوں مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے ، اور نورانی دعا «يا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ» کی ہر لمحہ تلاوت کرتے تھے کیوں کہ یہ دعا فقط نماز کے بعد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسے روز شب کے کسی بھی حصے میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: دعائیں اگر چہ جملہ خبریہ کی صورت رکھتی ہیں ، مگر ان کا مفھوم اور اس کے معانی انشائیہ ہیں ، قران کریم میں آیا ہے کہ جو عذاب الھی سے امان میں نہیں ہیں وہ بدقسمت ہیں ، اور اس دعا میں آیا ہے کہ «وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِندَ کُلّ شَرّ» یہ جملہ انشائیہ ہے ، یعنی خداوندا ہمیں اپنے عذاب اور غضب سے نجات دے ، «يا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ كُلِّ شَر»؛ خدایا ! پیش آنے والے تلخ حوادث سے ہمیں امان میں رکھ ، غرض یہ ہے کہ یہ دعائیں نماز کے بعد ہی سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس پورے مہینہ میں کسی بھی وقت ، کسی بھی لمحہ اس دعا کو پڑھا جاسکتا ہے ۔
حضرت آیت الله جوادی آملی نے حضرت امام محمد باقر(ع) سے منقول روایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت امام محمد باقر(ع) ایک جگہ تقریر کر رہے تھے سامعین میں سے بیٹھے ہوئے ایک انسان نے کہا کہ ہم نے آج کیا دُرّ بے بہا اور جواھر سنے ہیں ، ہم نے آج آپ سے بخوبی استفادہ کیا ، تو حضرت نے جواب میں کہا کہ کیا افسوس کا مقام نہیں ہے کہ تو نے ان باتوں کو سونے اور چاندی سے تشبیہ دیا ، سونا زرد رنگ کا ایک پتھر ہے مگر چونکہ کمیاب ہے اس لئے معاملات اور لین دین کا وسیلہ قرار پایا و گرنہ خود اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، سونے اور دیگر پتھروں میں کوئی فرق نہیں ہے ، افسوس کا مقام نہیں ہے کہ تو ہماری ان باتوں کو سونے سے تعبیر کیا ۔
انہوں نے مزید کہا: رسول اسلام(ص) نے فرمایا «أَنَا وَ عَليٌّ أَبَوَا هَذَهِ الاُمَّة» کہ تم ہمارے فرزند ، ہمارے بچے ہو ، ہم جب شیعہ مذھب پر ایمان لے آئے ، ان کی امامت کو مان لیا اور ان کی عصمت کے قائل ہوگئے تو ان کے فرزند شمار کئے جائیں گے ، اگر مرسل آعظم(ص) کی حدیث «أَنَا وَ عَليٌّ أَبَوَا هَذَهِ الاُمَّة» کے تحت ہم ان کے فرزند ہیں اور بہک جائیں تو انہیں تکلیف ہوگی کیوں کہ کسی بھی ماں باپ کو یہ پسند نہیں کہ ان کا بچہ بہک جائے ، حضرت(ص) بھی اسی طرح ہیں کہ انسان کے بہکنے سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے ، لہذا ہمیں اس طرح ہونا چاہئے کہ ہمارے اعمال حضرت(ص) کو تکیلف نہ دیں جیسا کہ روایتوں میں ملتا ہے کہ ہر شب جمعہ ہمارا نامہ اعمال امام زمانہ(عج) کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور حضرت برے نامہ اعمال پر کبیدہ خاطر ہوتے ہیں ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ۷۳۰