رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله حسین مظاهری نے ایران کے شہر اصفہان کے مسجد امیرالمؤمنین (ع) میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں بیان کیا : خداوند عالم حقیقی حاجی کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔
انہوں نے تفسیر کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سو اٹھانویں آیت کہ جس میں فرمایا گیا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتاَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَیْهِ أَنْ یَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاکِرٌ عَلِیمٌ» وضاحت کی : صفا اور مروہ الہی شعائر میں ہیں کہ اس سے مرتبط اعمال کو انجام دینا حج کے واجبات میں سے ہے ؛ جو بھی حج کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی کرے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اپنی گفت و گو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : جو شخص بھی صفا اور مروہ کے سعی کے فرائض کو انجام دیتا ہے وہ خداوند عالم کے شکر کا حامل ہوتا ہے کہ اس مقام کا حصول عظیم اہمیت رکھتا ہے کیوںکہ عمومی طور پر انسان خداوند عالم کے نعمتوں کی وجہ سے اس کا شکریہ ادا کرے لیکن صفا و مروہ کی سعی کی اس قدر عظمت ہے کہ اس کو انجام دینے سے خداوند عالم حاجیوں کا شکر ادا کرتا ہے ۔
اصفہان حوزہ علمیہ کے سربراہ نے بیان کیا : شان نزول یعنی وہ عوامل جو ایک آیت یا ایک سورہ کے نزول کا سبب ہوتا ہے ، آیت شریفہ جس کی تلاوت کی ہے اس کی بھی شان نزول ہے لیکن یہ شان نزول بمعنی صفا و مروہ کی سعی کے وجوب کا اصلی سبب نہیں ہے بلکہ صفا و مروہ کی سعی حج کے تعبدی اعمال میں سے ہے ۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے بیان کیا : حضرت ابراهیم (ع) اپنے بڑھاپے کے زمانہ تک اپنی زوجہ جن کا نام سارہ تھا ان سے صاحب اولاد نہیں ہو رہے تھے اسی وجہ سے سارہ جو ایک دین دار خاتون تھیں جنہوں نے حضرت ابراهیم (ع) کے دین کو فروغ دینے میں بہت کوشیشیں کیا کرتی تھیں ، ہاجرہ نام کی خاتون سے حضرت ابراهیم (ع) کی شادی کروا دی اور کچھ زمانہ کے بعد حضرت ابراهیم (ع) جناب ہاجرہ سے صاحب اولاد ہوئے کہ جن کا نام اسماعیل (ع) رکھا گیا ، اس واقعہ رونما ہونے سے سارہ کی حسادت ابھرنے لگی اور یہ مسئلہ سبب ہوا کہ خداوند عالم کی طرف سے حضرت ابراهیم (ع) کو حکم ہوا کہ جناب ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (ع) کو شہر حجاز لے جائیں ۔
انہوں نے اپنی گفت و کو کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا : جب حضرت ابراهیم (ع) جناب هاجر اور حضرت اسماعیل (ع) کے ساتھ حجاز پہونچے تو خداوند عالم کی طرف سے حضرت ابراهیم (ع) کو حکم دیا گیا کہ اپنی زوجہ اور اپنے بیٹے کو اسی بیابان میں جہاں نہ کھانا اور نہ پانی ہے وہاں چھوڑ کر اپنے شہر واپس لوٹ جائیں ، اسی وجہ سے حضرت ابراهیم (ع) نے اپنی زوجہ اور اپنے بیٹے کو صفا اور مروہ کے پہاڑ کے پاس چھوڑ کر چلے گئے ؛ ہاجرہ اور اسماعیل (ع) کو کچھ دیر کے بعد پیاس لگنے لگی اسی وجہ سے جناب ہاجرہ نے دور سراب دیکھا اور پانی سمجھ کر اس طرف جانے لگیں اور یہ کام انہوں نے سات مرتبہ انجام دیا لیکن کچھ دیر بعد معجزہ رونما ہوا اور حضرت اسماعیل (ع) کے پیر کے نیچے سے صاف پانی کا چشمہ جاری ہو گیا ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے بیان کیا : حضرت اسماعیل (ع) کے پاوں کے نیچے سے جو پانی کا چشمہ جاری ہوا اس کی وجہ سے وہ بیابان جہاں نہ پانی و گھانس تھا وہ ایک اچھا سر سبز و خوش آب و ہوا علاقہ بن گیا ، ایسا فضا قائم ہونے کی وجہ سے بہت سارے لوگ وہاں آ کر بسنے لگے ؛ کئی برس گذرنے کے بعد حضرت ابراهیم (ع) خداوند عالم کے حکم سے جناب ہاجرہ کی طرف رجوع کیا اور تعجب کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ علاقہ کس حد تک خوش آب و ہوا ہو گیا ہے ؛ حضرت ابراهیم (ع) آنے کے بعد خداوند عالم کے حکم سے موجودہ شکل میں خاںہ خدا کی تعمیر شروع کر دی ، حضرت ابراهیم (ع) نےاپنے بیٹے اسماعیل (ع) کے ساتھ مل کر خرق عادت یعنی غیر عادی صوت میں موجودہ شکل میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے آیات قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کی روایات سے استناد کرتے ہوئے اظہار کیا : حضرت ابراهیم (ع) اپنی زوجہ اور بیٹے کے ساتھ حج کے اعمال کو انجام دیا اور قربانی کرنے کا وقت آیا کہ حضرت اسماعیل (ع) کی قربانی کرنے کا واقعہ کا وقت آیا کہ خداوند عالم کی طرف سے باپ اور بیٹے کی عظیم امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کے اختمامی مراحل میں بیان کیا : خداوند عالم کا گھر ہمیشہ باقی ہے کیونکہ اس کو بنانے والے نے خلوص سے اس کی تعمیر کی ہے ؛ جو شخص بھی خداوند عالم کے راہ میں قدم اٹھاتا ہے اس کا اجر خداوند عالم کی طرف سے حاصل کرتا ہے ؛ جو انسان اپنی زندگی میں صرف خداوند عالم کے لئے کام کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۹۶۲/