رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد و قرآن کریم کے مفسر حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ رحمن کی بعض آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا : اس سورہ مبارک کی دو فصل ہے اور اس کی ایک فصل خداوند عالم کی دنیوی نعمات سے متعلق ہے اور وہ جلال و اکرام کے ذکر کے ساتھ ختم ہوتی ہے اور اس کی دوسری فصل میں دنیا کی الہی نشانیاں بیان کی گئی ہیں اور وہ جلال و اکرام کے ذکر کے ساتھ ختم ہوتی ہیں ۔
انہوں نے وضاحت کی : اس دنیا میں غضب کے عنوان سے کوئی چیز موجود نہیں ہے ، ذات اقدس الہی نے سورہ مبارک انعام میں ایک اصل کلی فرمایا ہے کہ میری رحمت تمام چیروں پر پھیلی ہوئی ہے ، ایک رحیمیہ رحمت ہے کہ جو مومنوں کے لئے ہے اور اس کے مقابلہ میں کافروں کے لئے غضب ہے اور ایک رحمانیہ رحمت ہے کہ جو سب لوگوں کے لئے موجود ہے ، عالم کا ناظم و بنانے والا رحمت ہے ، اس دنیا میں غضب کے عنوان سے کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف استاد نے وضاحت کی : خداوند عالم قیامت کے روز فرمائے گا «لاظلم الیوم» یعنی نظام عالم میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے ، لیکن اس عالم میں یہ تمام رنج و غم یا تنبیہ ہے یا امتحان یا عذاب کا مقدمہ ہے ، خداوند عالم کی طرف سے دنیا میں کوئی بھی ظلم موجود نہیں ہے اور نہ آخرت میں پایا جاتا ہے ، اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے کارنامے و اعمال ہیں کہ جو تمہارے شامل حال ہے ، الہی نظام میں کسی طرح کا ظلم نہیں ہے اور اگر چہ انتقام کا مقام ہے ، ماموم کا انتقام ہے نہ امام کا ، یعنی اس انتقام کی ہدایت رحمت کرتی ہے ۔
انہوں نے اس اشارہ کے ساتھ کہ معاشرے میں تبشیر سے زیادہ انذار اثر انداز ہے بیان کیا : نماز شب کی جو اس قدر فائدے و فضیلت بیان کی گئی ہے لوگوں کے درمیان اس کا کوئی اثر نہیں ہے ، لیکن جب صبح کی نماز کے سلسلہ میں باتیں کی اور الہی عذاب کو بیان کیا تو وجہ بنی کہ اکثر لوگ نماز صبح پڑھیں ، امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک حدیث ہے کہ جس میں فرمایا ہے خداوند عالم کی طرف جانے کا سفر بغیر نماز شب کے حاصل نہیں ہو سکتی ، یہ حدیث نماز شب کی اہمیت کو بیان کر رہی ہے ، نماز شب کی ان تمام فضیلتوں کے باوجود ہم لوگ نماز شب نہیں پڑھتے ہیں لیکن نماز صبح کو پڑھتے ہیں کیوں کہ اس کے سلسلہ میں عذاب الہی بیان کی گئی ہے ۔
حضرت آیتالله جوادی آملی نے بیان کیا : قرآن کریم میں بعض وقت جن کا نام انس پر مقدم ہوا ہے اور کبھی کبھی انس کا نام جن پر مقدم ہوا ہے ، اسی سورہ مبارکہ الرحمن میں انسان کو پہلے ذکر کیا ہے لیکن اس کے بعد جن کا نام لیا گیا ہے ، انسان کو پہلے ذکر کیا ہے حالانکہ جن کو انسان سے پہلے خلق کیا گیا ہے ، جن سے نبی و امام نہیں آئے ہیں کیوں کہ وہ کوئی مقام نہیں ہے ، ان میں سے مومن پیں لیکن جن ان مقام میں سے نہیں ہیں کہ ان میں سے نبی و امام بھی ہوں ، جن کا رفتار انسان سے تیز ہے ، اسی وجہ سے سورہ مبارکہ رحمن میں جب آسمان میں نفوذ کی بحث بیان کی گئی تو جنیوں کا ذکر پہلے کیا ہے ۔
انہوں نے آیت «فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ» کی قرآت کرتے ہوئے بیان کیا : اس روز کسی بھی جن و انس سے اس کے گناہ کا سوال نہیں کیا جائے گا ، حالانکہ قرآن کریم نے دوسرے حصہ میں فرمایا ہے کہ ان کو روکو ان کو جانے نہ دو ان سے سوال کیا جائے گا ، سوال بھی کبھی استفهامی ہے اور کبھی سوال استعطایی ہے اور کبھی سوال توبیخی ہے ، «وقفوهم فانهم مسؤولون» یعنی یہاں پر سوال توبیخی ہے ، لیکن آیت میں فرمایا «فَيَوْمَئِذٍ لَا يُسْأَلُ عَنْ ذَنْبِهِ إِنْسٌ وَلَا جَانٌّ» یعنی اس روز کسی سے سوال نہیں ہوگا ۔/۹۸۹/ف۹۷۰/