رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رسول اسلام صلى الله عليه و آله کے اصحاب میں عظیم المرتبت اور فداکار شخصیتیں موجود تھیں ، قران کریم اور کثیر روایات میں جن کی فضلیتوں کا تذکرہ ہے [1] ۔ وہ اصحاب جو مرسل آعظم صلى الله عليه و آله و سلم کی حیات میں آپ کے مخلص اصحاب میں تھے اور آپ صلى الله عليه و آله کی وفات کے بعد بھی اسلام کی حفاظت میں مصروف رہے اور قران سے کئے ہوئے اپنے وعدہ پر دفادار و ثابت قدم رہے [2] ، وہ اصحاب جنہوں نے شور و شرابا مچانے کے بچائے جھاد و کوشش میں خود کو مصروف رکھا [3] اور اسلام کی ترقی میں کوشش و مجاھدت کی ایسے اصحاب پروردگار عالم کی جانب سے مورد حمد و ثنا قرار پائے [4] ، اس درمیان رسول اسلام صلى الله عليه و آله و سلم نے حضرت سلمان فارسى (رض) کو[5] اس حدیث «سلمان منّا اھلبیت» کے ذریعہ اپنے اہل بیت علیھم السلام میں شمار کیا ہے [6] ۔
جناب سلمان فارسی کی حیات پر ایک نگاہ
جناب سلمان فارسی(رض) نے مرسل آعظم (ص) کی ولادت سے پہلے سرزمین فارس سے حق کی تلاش میں اپنے سفر کا آغاز کیا ، آپ کا تعلق صوبہ اصفھان ایران کے موضع «رامهرمز فارس» يا «جى» سے تھا[7] ۔
سلمان فارسی(رض) حق اور حقیقت کے عاشق تھے ، آپ آتش پرست «زرتشت» گھرانے میں پیدا ہوئے اور عیسائی مذھب کے آئین سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد اس کے فریفتہ ہوگئے ، اسی بنیاد پر حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے اور عیسائیت کے حقیقی آئین کی تلاش میں چل دئے ، آپ اس راہ میں ناقابل برداشت سختیاں برداشت کر کے شام تک پہونچے اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ایک عیسائی رھنما کی سامنے زانوئے ادب تہ کیا[8] ۔
جب تک وہ عیسائی رھنما با حیات رہا حضرت سلمان فارسی بھی اس کے پاس رہے اور اس کی وفات کے بعد اس کی وصیت کے تحت موصل میں موجود ایک دانشور کے پاس پہونچے ، جناب سلمان اس عیسائی عالم کی حیات تک بھی اس کے پاس رہے اور اس کی وصیت کے تحت قلعہ عموريہ تشریف لے گئے اور وہاں دیگر عیسائی عالم دین سے تلمذ کیا ، جب اس عیسائی عالم دین کا بھی کاسہ عمر لبریز ہوگیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ اب حق کی تلاش میں کہاں جائیں تو اس نے جواب دیا کہ گذشتہ رسولوں سے موصولہ خبروں کے مطابق عنقریب آئين حضرت ابراهيم (ع) پر ایک پیغمبر مبعوث ہوں گے اور اس زمین کی جانب ھجرت کریں گے جو خرمے کے درختوں سے بھری ہوگی ، اس کی نشانیاں کہ من جملہ ان نشانیوں میں سے اس کے دونوں شانوں کے درمیان بڑی سی تل ہے کہ جو مھر ختم رسول سے معروف ہے ، وہ ہدیہ استعمال کرتے ہیں مگر صدقہ نہیں کھاتے [9] ۔
جناب سلمان فارسی اس عیسائی استاد کی موت کے بعد ایک عرب قافلے سے ملے اور اس سے کہا کہ میرے پاس جو گائے اور بکریاں ہیں میں انہیں آپ کو دے دوں گا اس کے بدلے آپ میں مجھے اپنے شھر لیتے چلئے ، یہ قافلہ انہیں وادى القرى لے گیا اور انہیں ایک یھودی کو بیچ دیا [10]۔
سلمان فارسی اسلام کے فرزند
جناب سلمان فارسی کہتے ہیں کہ جب میں نے خرمے کے درخت دیکھے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی جگہ ہے جس کے سلسلے میں استاد نے بتایا تھا مگر اس انسان نے مجھے قبيلہ بنى قريضہ کے ایک آدمی کے ہاتھوں بیچا تھا کہ جو انہیں مدینہ لے گیا ، میں اس درمیان اس کے صفات سے آشنا ہوا اور اس کے نخلستان میں کام کرتا رہا یہاں تک کہ مرسل آعظم صلّى اللّه عليه و آله و سلّم مبعوث بہ رسالت ہوئے مگر میں بے خبر تھا اور جب حضرت مدینے تشریف لائے تب مجھے اطلاع ملی [11]۔
ایک دن مجھے بتایا گیا کہ مکہ کے ایک شخص آئے ہیں جو نبوت کے دعویدار ہیں ، میں فورا مرسل آعظم صلّى اللّه عليه و آله و سلّم کی خدمت میں پہونچا یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اسلام صلّى اللّه عليه و آله و سلّم محلہ قبا میں مقیم تھے ، میرے ساتھ کچھ کھانے پینے کی اشیاء تھیں جنہیں میں نے حضرت کے سامنے رکھ دیا اور عرض کیا کہ صدقہ ہے ، آپ کو اور آپ کے اصحاب کو نیک انسان سمجھتا ہوں اس لئے آپ اسے تناول فرمائیں ، حضرت نے اسے نہیں کھایا مگر ان کے اصحاب نے اس کھایا ، میں نے دل میں کہا کہ یہ ایک نشانی ، پیغمبر اکرم (ص) جب قبا سے مدینہ تشریف لے گئے تو میں نے کچھ اور مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں مھیا کی اور حضرت کی خدمت میں پہونچا اور عرض کیا کہ میں آپ سے محب کرتا ہوں اور یہ صدقہ نہیں ہے بلکہ ھدیہ ہے تو حضرت نے بھی اسے کھایا اور اپنے اصحاب کو بھی کھانے کو دیا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ دوسری نشانی ، وقت نہیں گذرا تھا کہ میں انہیں بقیع کی سمت تشییع جنازہ میں شریک پایا ، آپ کے اصحاب آپ کا احاطہ کیا ہوئے تھے میں نے ان کا احترام کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا اور منتظر رہا کہ عبا ہٹ جائے اور مھر نبوت کو دونوں شانوں کے درمیان دیکھ لوں ، وہ میرے دل کی بات جیسے سمجھ گئے ہوں کہ میں کیا تلاش کررہا ہوں ، انہوں نے اپنے شانے سے عبا ہٹا دی اور میں جو کچھ چاہ رہا تھا وہ دیکھ لیا ، میں نے مھر نبوت کی زیارت کی اور اس کا بوسہ لیا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے پھر اسلام قبول کرلیا ، حضرت نے مجھے اپنے پاس بیٹھایا اور اپنی زندگی پوری داستان جس طرح تمہیں سنا رہا ہوں اے ابن عباس اسی طرح رسول خدا صلّى اللّه عليه و آله و سلّم کو سنایا ، حضرت کو تعجب ہوا اور حضرت نے کہا کہ ان کے اصحاب کو بھی اپنی داستان زندگی سناوں [12] ۔
میں چوں کہ غلام تھا اس لئے جنگ بدر و احد میں شریک نہ ہوسکا یہاں تک حضرت نے حکم دیا کہ اپنے مالک سے طے کرو کہ تم جب بھی قیمت ادا کردو گے وہ تمہیں آزاد کردے گا [13]، میں نے اس سے طے کرلیا اور اصحاب رسول اسلام کی مدد سے قیمت ادا کردی اور آزاد ہوگیا [14]۔
اسلام کی توسیع میں جناب سلمان فارسی کا کردار
رسول اسلام کی حیات میں جناب سلمان فارسی کی کوششیں قابل ستائش ہیں ، اسلام کی توسیع اور اسلام کے مادی و معنوی امور و مسائل کی تعلیمات کو عام کرنے میں آپ کا اہم کردار ہے [15] ۔
خندق کھودنے کے سلسلے میں جناب سلمان فارسی کی تجویز کا رسول اسلام کی جانب سے استقبال
مسلمان، جنگ احزاب میں نہایت سخت اور خطرناک لمحات سے روبرو تھے ، لشکر اسلام میں موجود منافقین شدید اختلافات کا شکار تھے ، دشمن کے لشکر کی تعداد میں کثرت اور لشکر اسلام کی تعداد میں کمی جیسا کہ تاریخ شاھد ہیں لشکر کفر ۱۰ ھزار اور لشکر اسلام تین ھزار کی تعداد میں تھے [16] ، اسلحہ اور جنگی وسائل کے حوالے سے لشکر کفر کی آمادگی نے تازہ مسلمانوں کے دلوں خوف و حراس بیٹھا رکھا تھا [17] ۔
پيغمبر صلّى اللّه عليه و آله کے حکم پر مسلمان یکجا ہوئے [18] اور اس مقام پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ، بعض اس بات کے قائل تھے کہ رسول اسلام صلّى اللّه عليه و آله مدینہ سے باہر جاکر جنگ لڑیں مگر حضرت سلمان فارسی ایک تجربہ کار انسان تھے اور شھر کے اطراف میں خندق کھود کر شھر کے دفاع کا تجربہ رکھتے تھے [19] آپ نےعرض کیا ہم جب بھی دشمن سے خوف زدہ ہوتے تو شھر کے اطراف میں خندق کھود کرشھر کا دفاع کیا کرتے تھے ، اے رسول خدا کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ مدینہ کے اطراف میں خندق کھودی جائے ؟ جناب سلمان فارسی کا نظریہ اکثر مسلمانوں کے مورد تائید قرار پایا اور انہوں نے خندق کھودنے کو ترجیح دی نیز مرسل آعظم نے بھی اسے قبول کیا [20]،[21] ، جناب سلمان فارسی کی تجویز پر شھر مدینہ کے اطراف میں خندق کھودی گئی اور اسی بنیاد پر اس جنگ کا ایک نام جنگ خندق بھی ہے [22]۔
جی ہاں ، جناب سلمان نے خندق کھودنے کا نقشہ بنایا اور مرسل آعظم نے اسے جامہ عمل پہنانے کا حکم دیا [23] ، لشکر اسلام کی اس طرح حفاظت کی گئی [24] اور شھر مدینہ دشمن کے ہاتھوں میں پڑنے سے محفوظ رہا [25] ۔
جناب سلمان فارسی کی فضلیت کی ایک جھلک
جناب سلمان فارسی کی عظمت و بلندی اور آپ کے حالات زندگی کے سلسلے میں کافی کتابیں اور مقالات تحریر کئے گئے ہیں ، قدیم اور جدید مورخین سبھی نے آپ کو سراہا ہے ، من جملہ کتاب استيعاب میں عائشہ سے نقل ہے کہ پیغمبر اسلام کبھی شبوں میں جناب سلمان فارسی سے محو گفتگو ہوتے تو یہ نشست اس قدر طولانی ہوجاتی کہ ہماری نیند اڑجاتی ، اس نشست میں دونوں یعنی رسول اسلام اور جناب سلمان فارسی کے درمیان کیا باتیں ہوتیں اسے فقط خدا اور اس کا رسول ہی جانتا ہے ۔ [26]
نیز جناب سلمان فارسی کے حالات زندگی میں مذکور ہے کہ بیت المال میں آپ کا سالانہ حق پانچ ھزار درھم تھا مگر آپ اسے راہ خدا میں انفاق کردیتے تھے اور اپنے بازوں کی کمائی سے نہایت سادی زندگی بسر کرتے تھے ، اور فرماتے کہ میں اپنے بازو کی کمائی کے سوا کوئی بھی رقم خرچ نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ رسول اسلام کا ارشاد ہے کہ «ما أكَلَ أحَدُكُمْ طَعاماً قَطُّ خَيْراً مِنْ عَمَلِ يَدِهِ؛ تم میں سے کوئی بھی اپنے بازو کی کمائی سوا کچھ بھی نہ کھائے » ۔ [27]،[28]
جناب سلمان فارسی کی فضیلت کے سلسلے میں بے شمار روایتیں موجود ہیں کہ جو آپ کی عظمت و منزلت کی بیانگر ہیں ، من جملہ رسول خدا صلى الله عليه و آله اس کی حدیث میں آیا ہے :«لَوْ كانَ الدِّينُ في الثُّريّا لَنا لَهُ سَلْمانُ؛ اگر دین آسمان کی بلندی پر ہو تو سلمان وہاں پہونچ جائیں گے » ۔[29]،[30]
اور یا حضرت اميرالمؤمنین علی علیہ السلام سے جناب سلمان فارسی کے لئے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : «سَلْمانُ الْفارْسي كَلُقْمانِ الْحَكيمِ؛ سلمان فارسى ، لقمان حكيم کے مانند ہیں » ۔[31]،[32]
فتنے کے وقت سلمان فارسی کی ولایت پذیری
مسئلہ ولایت اپنے خاص معنی میں اور حب فى اللَّه اور بغض فى اللَّه عام معنى میں ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر روایات میں بہت تاکید کی گئی ہے ، یہاں تک کہ سلمان فارسی حضرت امير المؤمنین على(ع) سے عرض کرتے ہیں کہ میں جب بھی رسول اسلام کی خدمت میں پہونچا تو حضرت نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر آپ کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ :«اے سلمان یہ مرد اور اس کی حزب کامیاب ہے »[33]،[34]،[35]
نیز تاریخ میں آیا ہے کہ جناب سلمان فارسی نے غدیر کے دن رسول خدا سے سوال کیا کہ على(ع) کس طرح کی ہم پر ولایت رکھتے ہیں تو حضرت نے فرمایا : « ولاؤه كولاى من كنت اولى به من نفسه فعلى اولى به من نفسه؛ علی کی ولایت تم پر میری ولایت کے مانند ہے ، میں جس کے بھی نفس پر بھی ولایت رکھتا ہوں علی بھی اس کے نفس پر ولایت رکھتے ہیں !»[36]،[37]
انہیں بنیاد پر سلمان فارسی مرسل آعظم کے انتقال کے بعد خلافت کے صف اول کے دشمنوں میں سے تھے ، وہ تین شخصیتیں جو پيغمبر صلّى اللّه عليه و آله و سلّم کے انتقال کے بعد خلفاء ثلاثہ کے سرسخت مخالفوں میں سے تھے اور حضرت (ص) کی وصیت کے مطابق زمام خلافت علی علیہ السلام کا حق تھا وہ حضرت سلمان فارسی ، ابوذر اور مقداد رحمت اللہ علیھم کی شخصیت تھی ۔[38]
اور جب حضرت علی علیہ السلام کو گرفتار کرکے مسجد کی جانب لے چلے [39] تو علی علیہ السلام نے فرمایا: ہمارے وفادار کل صبح اپنے سروں کو تراشے ہوئے اور اسلحہ کے ساتھ میرے گھر آئیں تو اس آواز پر فقط سلمان، ابوذر، مقداد اور زبير نے لبیک کہا ۔ [40]
سلمان فارسی کا ایمان
تمام انسانوں کا ایمان اور عمل صالح یکساں نہیں ہے ، تمام انسانوں سے ایمان و عمل صالح کے میدان میں برابری کی امید نہیں کی جاتی بلکہ ہر کسی سے اس کی توانائی ، طاقت اور فھم و سمجھ کے بقدر ایمان و اعمال صالح کی امید ہے ، یقینا حضرت على عليه السلام و سلمان و ابوذر اور مقداد کا ایمان دیگر انسانوں کے برابر نہیں ہے ، ان افراد سے جن باتوں کی امید ہے وہ عام انسانوں سے نہیں کی جاسکتی ، خلاصہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی توانائی اور ظرفیت کے بقدر ایمان رکھ کر اور عمل صالح انجام دے کر بہشت میں داخل ہوگا اور اس میں رہے گا ۔
مرحوم «علّامہ مجلسى» لکھتے ہیں حضرت امام صادق عليه السلام سے مختلف طریقے سے منقول ہے کہ ایمان کے دس درجے ہیں اور مقداد آٹھویں درجے پر ، ابوذر نویں درجے پر اور سلمان دسیوں درجے پر ہیں [42]،[43] یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ انبيا اور اوصياء معصوم کے ایمان کا حساب الگ ہے ۔ [44]
رسول اسلام نے اپنے اصحاب کے درمیان اپنے دست مبارک کو جناب سلمان کے شانے پر رکھا اور ایک دیگر روایت کے مطابق آپ کے زانوں پر رکھا مارا اور فرمایا : «هَذَا وَ قَومُهُ وَالَّذى نَفْسي بِيَدِهِ لَوكَانَ الايمانُ مَنُوطاً بِالثُرَيّا لَتَناوَلَهُ رِجالٌ مِنْ فَارْسٍ[46]؛ خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جانب ہے " خداوند" یہ مرد اور اس کی قوم اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو وہاں جاکر اسے حاصل کرلیں گے ۔ » ۔ [47]
جناب سلمان کس طرح «منا اهل البیت» ہوگئے ؟
مورخین کے بیان کے مطابق مهاجر و انصار میں سے ہر کوئی جناب سلمان فارسی کو اپنا بنانا چاہ رہا تھا جبکہ جناب سلمان فارسی نہ مکہ کے تھے اور نہ مدینہ کے بلکہ سرزمین فارس سے حقیقت کے تلاش میں جزیرہ عرب پہونچے تھے ، آپ نے اس راہ میں بہت دشواریاں برداشت کی تھیں ، لہذا رسول اسلام نے فرمایا کہ «سلمان منا اهل البيت» اور حضرت نے اس طرح اس اختلاف کا خاتمہ کردیا ۔ [48]
ایک دیگر مقام پر مرحوم علّامہ مجلسى حدیث «سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ» کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب سلمان فارسی ، رسول اسلام کی بزم میں وارد ہوئے ، حاضرین نے ان کے عمر دراز ہونے اور رسول اسلام کے خاص تعلقات کی بنیاد پر ان کا احترام کیا اور انہیں صدر مجلس میں بیٹھایا ۔[49]
ناگہاں عمر وارد مجلس ہوئے اور ان کی جانب دیکھ کر کہا: یہ عجمی انسان جو عرب کی صدر مجلس میں بیٹھا ہے کون ہے ؟ رسول اسلام ان کے اس بیان سے ناراض ہوئے اور منبر پر جاکر خطبہ دیا اور فرمایا : تمام انسان جناب آدم کی خلقت سے لیکر آج تک کنگھی کے دانتوں کے مانند برابر ہیں ، «لا فَضْلَ لِلْعَربيِّ عَلَى الْعَجَمي وَلا لِلْأحْمَرِ عَلَى الْأسْوَدِ إلّابِالتَّقْوى؛ عرب کو عجم پر ، سفید فام کو سیاہ فام بجز تقوائے الھی کے برتری حاصل نہیں ہے ، پھر فرمایا: :«سَلْمَانُ بَحْرٌ لَايُنْزَفُ وَكَنْزٌ لَا يَنْفَدُ سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ سَلْسَلٌ يَمْنَحُ الْحِكْمَةَ وَيُؤْتِي الْبُرْهَانَ؛ سلمان گہرا دریا ہیں کہ جس پانی ھرگز کم نہ ہوگا اور ختم نہ ہونے والا خزانہ ہیں ، سلمان مجھ اہل بیت میں سے ہیں ، سلمان وہ سرچشمہ ہیں جس سے ہر لمحہ اپنے علم و دانش اور برہان ابلتا ہے » ۔ [50]،[51]
کاظمین میں جناب سلمان کی زیارت
جناب سلمان فارسی نے سن 35 يا 36 هجرى ، عثمان کے دوران خلافت میں اور بعض روایتوں کے مطابق خلیفہ دوم عمر ابن خطاب کے آخری دور خلافت میں مدائن میں انتقال فرمایا ۔ [58]
روایتیں بیانگر ہیں کہ حضرت اميرالمؤمنین على عليہ السلام اپنے اعجاز امامت سے مدینہ سے مدائن پہونچے ، حضرت نے جناب سلمان فارسی کو غسل دیا، کفن پہنایا ، نماز جنازہ ادا کی اور اپنے ہاتھوں سے انہیں دفن فرمایا ۔ [59]،[60]
کربلائے معلی کے زائرین کاظمین پہونچ کر شھر مدائن میں دفن اس خدا کے بندہ صالح جناب سلمان " فارسی " محمّدى رضوان اللَّه عليہ کی ضرور زیارت کرتے ہیں ۔ [52]
«سيّد بن طاووس» «مصباح الزائر» میں تحریر کرتے ہیں کہ جناب سلمان فارسی کے لئے چار زیارت منقول ہیں ، ان کی قبر کے قریب کھڑے ہوکر رو بہ قبلہ کہو : السَّلامُ عَلى رَسُولِ اللَّهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ خاتَمِ النَّبِيّينَ...؛ سلام ہو خدا کے رسول محمّد بن عبداللَّه خاتم پيامبران پر...» پھر ساتھ مرتبہ سوره «انا انزلناه» پڑھو اور آپ کی قبر کے قریب مستحب نماز ادا کرو۔ [53] اور جس وداع کو «سيّد بن طاووس» نے نقل کیا ہے اسے پڑھو ۔ [54] «السَّلامُ عَلَيْكَ يااباعَبْدِاللَّهِ، انْتَ بابُاللَّهِ الْمُؤْتى مِنْهُ...؛ سلام ہو تم پر اے ابا عبد اللَّه، آپ (تقرب) خدا کا وہ دروازہ ہیں جس سے داخل ہوا جاتا ہے...»؛ پھر کثیر دعائیں مانگیں اور واپس لوٹ جائیں ۔ [55]،[56]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالجات
[1] اعتقاد ما ؛ ص85.
[2] همان؛ ص 86.
[3] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج1 ؛ ص476.
[4] اعتقاد ما، ص 86.
[5] آيات ولايت در قرآن ؛ ص360.
[6] ترجمه گويا و شرح فشرده اى بر نهج البلاغه ؛ نصج3 ؛ ص468.
[7] همان؛ص469.
[8] همان.
[9] همان.
[10] همان.
[11] همان.
[12] همان.
[13] همان.
[14] همان؛ ص 470.
[15] همان.
[16] برگزيده تفسير نمونه ؛ ج3 ؛ ص592.
[17] همان؛ ص 593.
[18] همان ؛ ص592.
[19] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج15 ؛ ص311.
[20] مغازى واقدى؛ ج1؛ 444( با تلخيص) .
[21] پيام قرآن ؛ ج10 ؛ ص97.
[22] برگزيده تفسير نمونه ؛ ج3 ؛ ص592.
[23] ترجمه گويا و شرح فشرده اى بر نهج البلاغه ؛ نصج3 ؛ ص470.
[24] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج15 ؛ ص311.
[25] همان ؛ ج12 ؛ ص512.
[26] همان؛ج11، ص 325.
[27] فى ظلال نهجالبلاغه؛ ج 4؛ ص 177.
[28] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص325.
[29] بحارالانوار؛ج 16؛ ص 310.
[30] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص327.
[31] شرح نهجالبلاغه ابن ابىالحديد؛ ج 18؛ ص 36.
[32] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص327.
[33] «يا ابا الحسن ما اطلعت على رسول اللَّه الا ضرب بين كتفى و قال يا سلمان هذا و حزبه هم المفلحون».
[34] ر.ک: برهان؛ ج 4 ؛ ص 312.
[35] تفسير نمونه ؛ ج23 ؛ ص473.
[36] فرائد السّمطين؛ باب 58. اميرمؤمنان عليه السلام علاوه بر اين سه مورد، در كوفه در روزى به نام« يوم الرّحبة» و در« جمل» و در حادثهاى به نام« حديث الرّكبان» و نيز در جنگ« صفّين» با حديث غدير بر امامت خويش استدلال نموده است.
[37] پاسخ به پرسشهاى مذهبى؛ ص 247.
[38] ترجمه گويا و شرح فشرده اى بر نهج البلاغه ؛ نصج3 ؛ ص471.
[39] گفتار معصومين(ع) ؛ ج1 ؛ ص195.
[40] همان؛ ص 196.
[41] آيات ولايت در قرآن ؛ ص328.
[42] بحارالانوار؛ ج 99؛ ص 291.
[43] كليات مفاتيح نوين ؛ ص458.
[44] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج13 ؛ ص735.
[45] جلوه حق بحثى پيرامون( صوفيگرى) در گذشته و حال ؛ ص169.
[46] « قرطبى» ؛ تفسير« جامع الاحكام» ، « برسويى» ؛« روح البيان»، « فخر رازى» ؛ « تفسير كبير» ، « طبرسى» ؛ « مجمع البيان» ، « سيوطى» ؛ « درّالمنثور» .
[47] اخلاق در قرآن، ج2، ص 369.
[48] ترجمه گويا و شرح فشرده اى بر نهج البلاغه ؛ نصج3 ؛ ص470.
[49] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص326.
[50] بحارالانوار؛ ج 22؛ ص 348؛ ح 64.
[51] ترجمه گويا و شرح فشرده اى بر نهج البلاغه ؛ نصج3 ؛ ص473.
[52] كليات مفاتيح نوين ؛ ص458.
[53] مصباح الزائر؛ صفحه 505 ، بحارالانوار؛ ج 99؛ص 287؛ ح 1.
[54] كليات مفاتيح نوين، ص: 460.
[55] مصباح الزائر؛ ص 511 ، بحارالانوار؛ ج 99؛ ص291.( با اندكى تفاوت).
[56] كليات مفاتيح نوين ؛ ص461.
[57] انوار هدايت، مجموعه مباحث اخلاقى ؛ ص313.
[58] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص327.
[59] بحارالانوار؛ ج 22؛ ص 368؛ ح 7.
[60] پيام امام امير المومنين عليه السلام ؛ ج11 ؛ ص327.
/۹۸۸/ ن۹۱۱