رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روضہ مبارک حضرت عباس علیہ السلام کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دام عزہ) نے ایک بار پھر عراقی موجودہ مؤرخین اور اہل قلم سے اپیل کی ہے کہ وہ داعش کے خلاف جوانوں کی بہادری کو تحریر کریں تا کہ کوئی اور اسے حقائق میں ہیر پھیر کے ساتھ نہ لکھنے پائے اور تاریخ کو بدلنے کی کوشش نہ کرے۔
علامہ صافی نے یہ اپیل دینی طالب علموں کے لیے شروع کیے گئے قرآنی پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے اختتام پر منعقد ہونے والی تقریب میں کی۔
روضہ مبارک کے قرآن انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے شروع کیے گئے اس منصوبہ کے پہلے مرحلے کے حوالے سے منعقدہ اس تقریب میں علامہ صافی نے مزید کہا: ہم ہمیشہ اپنے آپ کو اور سامعین کو اس پاکیزہ خون کے بارے میں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ جو آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ الوارف کے مبارک فتوی پر لبیک کہتے ہوئے بہا، ہم یہاں ایک تاریخی نقطہ کو ریکارڈ کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے:
کہ عراق کو بچانے میں دو اہم ترین چیزوں نے مدد کی:
1:۔ یہ مبارک فتوی کہ جو نجف اشرف کی گہری تاریخ کی نمائندگی کرتا ہے۔
2:۔ لوگوں کا اس فتوی پہ فوری طور پر لبیک کہنا کہ جس نے داعش کے خلاف ریکارڈ کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ درندے ہمارے ساتھ نہ جانے کیا سے کیا کرتے اور کوئی بچانے والا نہ ملتا۔
جب لوگ عاشورا کے واقعات کو سنتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے مد مقابل آنے والے لشکر نے کیسے کیسے مظالم کیے سروں کو تن سے جدا کیا بچوں کو بے دردی سے قتل کیا تو ان میں سے بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ شاید سانحات کربلا میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسان دوسرے انسان کے سر کو تن سے جدا کرے بچوں کو قتل کرے۔
کسی عام انسان کے لیے ایسا تصور کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے لیکن جب دنیا نے داعشی درندوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو سب کو واقعہ کربلا کی حقیقت کا نہ صرف یقین ہوا بلکہ انہیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ داعشی اور ان کے ہم فکر لوگ دشمنان اہل بیت علیھم السلام کے تاریخی سلسلہ کی موجودہ کڑی ہیں۔
علامہ صافی نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ داعش کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں 8000 سے زیادہ لوگ شہید ہوئے اور 22000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے اور ان میں سے ہر ایک اس بات پر مطمئن ہے کہ اس نے اس تاریخی فتوی پر عمل کر کے اپنے واجب کو ادا کیا اور تمام انسانوں کو ان داعشی درندوں سے محفوظ بنایا۔
علامہ صافی نے اپنے خطاب میں قرآنی علوم کی فضیلت اور دینی طلاب کی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی گفتگو کی۔/۹۸۹/ف۹۴۰/