رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله عبدالله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہرم قم کے مسجد اعظم میں منعقدہ اپنے تفسیر کے درس میں سورہ مبارکہ واقعہ کی ابتدائی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم قرآن کریم میں چاہتا ہے کہ ہم لوگ قیامت کی یاد میں رہیں اور اس امور کی بہت تاکید بھی کی ہے ، قرآن کریم نے قیامت کی یاد میں رہنے کے لئے ہم لوگوں کے لئے جو راستہ اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہم لوگوں کو خود اپنی یاد کی تاکید کی ہے ۔
انہوں نے وضاحت کی : جب ہم لوگ مبدا و ماخذ کی یاد میں ہیں تو یقینا قیامت کو بھی یاد کرے نگے اور اسی وجہ سے موت کی یاد بھی ہم میں زندہ ہو جائے گی ، صحیح امور کو انجام دینے کے لئے موت کی یاد سب سے اہم علت ہے ، کیوں کہ ہم لوگ موت کو فاسد ہونا نہیں جانتے ہیں تا کہ نابودی و ذہنی پریشانی میں مبتلی ہوں بلکہ موت کو آزادی و حصار سے نکلنا جانتے ہیں ۔
قرآن کریم کے مشہور و معروف مفسر نے اس بیان کے ساتھ کہ موت کی یاد شکوفائی و حرکت کی سب سے اہم علت میں سے ہے بیان کیا : نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں «اذکرو هادم الذات» یعنی گزری ہوئی خوشیوں کو یاد کرو ، یاد کرو کہ ایک روز تمہاری عمر ختم ہونے والی ہے اور قیامت کے روز اس کا جواب دینا ہوگا اور پہلی حدیث کے مطابق قیامت کے روز انسان سے جو سوال ہوگا یہی ہے کہ اپنی عمر کو کس چیز میں خرچ کی ہے ۔
انہوں نے اظہار کیا : خداوند عالم انسان کو نیک عمل کی ترغیب کی ہے ، فقہ کے ذریعہ انسان کو نیک و صالح عمل کی تشویق کرتا ہے ، بعض عمل کو واجب تو بعض کو مستحب قرار دیا ہے اور بعض اعمال کے لئے سزا اور بعض کے لئے اجر معین کیا ہے ، لیکن انسان کو نیک و صالح عمل کی طرف حوصلہ افزائی کرنے کے لئے دوسرا راستہ اعمال کے اسرار و بطون کا تعارف اس کو کریا ہے ۔
حضرت آیتالله جوادی آملی نے بہشت کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : خداوند عالم سورہ مبارکہ واقعہ میں فرماتا ہے کہ قیامت کے روز اہل بہشت ایک دوسرے کے سامنے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کے پشت پر نہیں ہے ، یہ دنیا میں ممکن نہیں ہے ، تب آخرت میں کیسے ممکن ہوگا ؟ بعض مفسر کہتے ہیں اس آیت کا مراد لقای الہی کے زمانہ میں ہے کہ جب سب حاضر ہیں اور کوئی بھی غیبت میں نہیں ہے اور اسی دلیل کی بنا پر متقابل ہیں ۔
انہوں نے بیان کیا : بعض مفسرین نے اس آیت کے سلسلہ میں کہا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اہل بہشت ایک دوسرے کی غیبت نہیں کرتے ہیں ، یقینا یہ بات صحیح ہے کہ بہشت میں غیبت و لغویات کا وجود نہیں ہے «لا لغو فیها و لا تأثیم» ، بہشت میں جھوٹ اور غیبت کی جگہ نہیں ہے ، لیکن یہ نتیجہ اس آیت کے نازل سے حاصل کیا گیا ہے ۔
حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے استاد نے اس اشارہ کے ساتھ کہ بہشت میں کوئی بھی بوڑھا نہیں ہوگا بیان کیا : بہشت میں کوئی نہیں مرتا ہے یہاں تک کہ وہاں بوڑھاپا بھی نہیں ہے ، بہشت میں تھکاوٹ و سستی بھی نہیں ہے ۔
حضرت آیتالله جوادی آملی نے اس تاکید کے ساتھ کہ عقل دو مقام پر اپنا نور کھو دیتا ہے بیان کیا : جب عقل پر ہوا و ہوس کا سایہ پڑ جاتا ہے اس وقت عقل کی نور افکنی ختم ہو جاتی ہے لیکن دوسرا زمانہ کہ جب عقل کا نور کام نہیں کرتا ہے یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ نور کو حاصل کرتا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۷۰/